Saturday, May 23, 2020

بھٹو نے سلامتی کونسل میں پولینڈ کی پیش کردہ قرارداد کیوں پھاڑی؟۔محمد عامر جاوید مہتہ کا تجزیہ

پاکستان میں ماضی کے واقعات کے بارے میں جھوٹ اس صفائی سے بولا جاتا ہے کہ نئی نسل تو کیا ماضی میں حالات کا مشاہدہ کرنے والے لوگ بھی شک میں پڑ جاتے ہیں اور ماضی کی بحث میں الجھ جاتے ہیں۔ ہر سال سقوط پاکستان سے متعلق ایک ایسی ہی بحث کا لب لباب یہ ہے کہ اگر بھٹو پولینڈ کی تجویز کردہ قراداد نہ پھاڑتا تو بنگلہ دیش وجود میں نہ آتا۔ اس سلسلے میں ٹی وی چینلز پر بھٹو صاحب کو غصے میں کاغذ پھاڑتے اور اپنی نشست سے اٹھ کر سلامتی کونسل سے باہر نکلتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ اس قرارداد میں ایسا کیا تھا کہ بھٹو صاحب غصے پر قابو نہ رکھ سکے۔ یہ جاننے سے پہلے کچھ اور باتوں کا ذکر ضروری ہے۔


بھارتی فوج کئی ماہ تک بھارت میں قائم بنگلہ دیش کی نام نہاد جلاوطن حکومت کے نام پر مشرقی پاکستان میں مسلح کاروائیاں کرتی رہی اور بالآخر 22 نومبر 1971 کو عید کےدن غیر اعلانیہ طور پر سرحد عبور کرکے مشرقی پاکستان میں داخل ہوگئی۔ بھارتی فوج کی اس کاروائی سے زچ ہوکر 3 دسمبر کی شام پاکستانی فوج نے مغربی پاکستان کی طرف سے بھارت پر حملہ کردیا جس کی وجہ سے معاملہ سلامتی کونسل میں پہنچ گیا۔

پاکستانی مندوب آغا شاہی نے 4 دسمبر 1971 کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں اس بات پر زور دیا کہ مشرقی پاکستان جاری فوجی آپریشن پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا اقوام متحدہ کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ اسلئے اقوام متحدہ اپنے کردار کو بین الاقوامی سرحدوں پر جاری جنگ تک ہی محدود رکھے۔

روسی مندوب نے اس ساری صورتحال کا ذمہ دار پاکستانی فوج کو ٹھہرایا اور تجویز پیش کی کہ بھارت میں قائم بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کو بھی اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس روسی تجویز کو چین نے ویٹو کردیا۔جس کے نتیجے میں ڈیڈ لاک کی صورت سامنے آگئی۔ جسے ختم کرنے کے لئے چین اور امریکہ نے مشترکہ قرارداد پیش کی جس میں پاکستان اور بھارت کی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ دونوں ملک فوری طور پر جنگ بندی کریں اور اپنی اپنی افواج کو بین الاقوامی سرحدوں پر واپس بلائیں۔ اس قرارداد کو روس نے ویٹو کردیا۔

صورتحال لمحہ بہ لمحہ فوج کے قابو سے باہر ہوتی جارہی تھی ایسے میں فوج کو معاملات سنبھالنے کے لئے ہمیشہ کی طرح ایک سیاستدان کی یاد آئی اور بھٹو صاحب کو وزیر خارجہ نامزد کرکے بنا حلف اٹھوائے اقوام متحدہ بھیج دیا گیا۔
پولینڈ کے مندوب نے روس کی حمایت سے 15 دسمبر 1971 کو ایک اور جنگ بندی کی قرارداد پیش کی جس کے بنیادی نکات مندرجہ ذیل تھے۔

۔ شیخ مجیب کو رہا کیا جائے۔
۔ مشرقی پاکستان میں حکومت چنے ہوئے عوامی نمائندوں کے سپرد کی جائے۔ (یاد رہے کہ مغربی پاکستان میں کیا کیا جائے ، اس کا کوئی ذکر نہیں)
مشرقی محاذ پر فوری جنگ بندی کی جائے ۔ (مغربی محاذ کا کوئی ذکر نہیں)۔
مشرقی پاکستان میں نئی قائم ہونے والی حکومت کے تعاون سے پاکستانی شہریوں اور پاکستانی فوج کا مشرقی پاکستان سے انخلا عمل میں لایا جائے اور اسی طرح مستقل جنگ بندی کے لئے مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج کو سرحد پر واپس بھیجا جائے۔ (مغربی پاکستان کا پھر کوئی ذکر نہیں)۔

اس قرارداد کے منظور ہوجانے کی صورت میں پاکستان کو کیا نقصانات یا فوائد حاصل ہوتے۔
۔ فوری جنگ بندی کی وجہ سے ڈھاکہ بھارتی فوج کے قبضے میں نہ جاتا۔
۔ بھارت کو واضح فتح نصیب نہ ہوتی۔
۔ پاکستانی فوج ہتھیار ڈالنے اور جنگی قیدی بننے سے بچ جاتی اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی مشرقی پاکستان سے پاکستانی فوج کا محفوظ طریقے سے انخلاممکن ہوجاتا۔
- مشرقی پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے وجود میں آجاتا۔ کیونکہ مشرقی پاکستان سے نکلنے کے بعد مغربی پاکستان کی فوج کا مشرقی پاکستان پر کوئی اختیار نہ رہتا۔

اندرا گاندھی کو علم تھا کہ اس قرارداد کو روس کی پشت پناہی حاصل تھی اس لئے اس نے بغیر کسی لیت و لعل کے ان تجاویز کو قبول کرلیا۔
مگر بھٹو صاحب کے لئے اس قرارداد پر دستخط کرنا مشرقی پاکستان کی آزادی کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف تھا۔ چنانچہ انہوں انتہائی غصہ میں ایک لمبی تقریر کی اور کہا کہ "میں چوہا نہیں ہوں"۔ پھر تقریر کے لئے لکھے ہوئے اپنے نوٹس پھاڑے اور باہر نکل گئے۔

“Finally, I am not a rat. I have never ratted in my life. I have faced assassination attempts, I have faced imprisonments. I have always confronted crises. Today I am not ratting, but I am leaving your Security Council. I find it disgraceful to my person and to my country to remain here a moment longer than is necessary. I am not boycotting. Impose any decision, have a treaty worse than the Treaty of Versailles, legalise aggression, legalis

"میں تمہاری سلامتی کونسل سے جارہا ہوں۔ یہاں ایک لمحے کے لئے ٹھہرنا بھی میرے اور میرے ملک کے لئے باعث شرم ہے۔ میں بائیکاٹ نہیں کررہا۔ تم جو مرضی فیصلہ کرلو۔ کوئی Versailles (یہ معاہدہ 1919میں جرمنی کو سزا دینے کے لئے کیا گیا تھا) سے بھی بد تر معاہدہ کرلو۔ جارحیت کو قانونی قرار دے دو۔ جارحیت کو قانونی قرار دے دو۔۔۔ "۔

پاکستان ٹوٹ چکا تھا مگر یحیٰ خان پھر بھی اقتدار سے چمٹے رہنے کے چکر میں تھا۔ ایسے میں جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان طیارہ لے کر نیویارک گئے اور بھٹو صاحب کو واپس لانے کے بعد 20دسمبر کو زبردستی اقتدار یحیٰ خان سے بھٹو صاحب کو منتقل کروایا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت بھی فوج بھٹو صاحب کو ہتھیار ڈالنے اور فوج کو حاصل ہونے والی ذلت کا ذمہ دار سمجھتی تھی؟
اگر ایسا سمجھتی تھی تو پھر ان جرنیلوں نے اقتدار فوج کی ذلت کے ذمہ دار کے سپرد کیوں کیا؟۔ جبکہ بھٹو صاحب طاقت کے بل بوتے پر اقتدار حاصل نہیں کر سکتے تھے۔

No comments:

Post a Comment