Monday, May 11, 2020

کشمیر کا سودا

16 مارچ 1846ء
بک گئی کشمیر کی جنت صرف پچھتر لاکھ میں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنت نشان کشمیر کی تاریخ کو جھانکیں تو یہ بات متباور ہوتی ہے کہ کشمیری قوم کو منحوس اور اذیت ناک واقعات سے پالا پڑاہے۔ 

ان عبرت انگیز اور انسانیت کُش واقعات میں " بیع نامہ امرتسر " سرِ فہرست ہے ۔برطانوی حکومت اور گلاب سنگھ کے درمیان اس معاہدہ پر 16 مارچ 1846 ء کو دستخط کئے گئے ۔

اس معاہدے کی آخری دفعات درج ذیل ہیں: 
دفعہ7۔ برطانوی حکومت مہاراجہ گلاب سنگھ کو بیرونی حملہ آوروں سے بچانے میں اس کی مدد کرے گی۔ 

دفعہ8۔ مہاراجہ گلاب سنگھ برطانوی حکومت کی اطاعت قبول کرتے ہیں اور اس اطاعت کی نشانی کے طور پر برطانوی حکومت کوہر سال ایک گھوڑا ،12 بکریاں اعلیٰ نسل کی( چھ بکریاں اور چھ بکرے) اور تین جوڑے کشمیری شالوں کے پیش کریں گے۔ 

یہ معاہدہ فریڈرک کیوری اور میجر ہنری منٹگمری لارنس کے ذریعے رائٹ آنریبل ہارڈنگز گورنر جنرل کے حکم سے برطانوی حکومت اور بہ نفسِ نفیس مہاراجہ گلاب کے درمیان طے ہوا اور آنریبل ہارڈنگزجی سی بی، گورنر جزل کی مہر ثبت ہوکر منظور ہوا ۔امرتسر میں 16 مارچ 1846 عیسوی بمطابق 17 ربیع الاول 1262 ہجری کو لکھا گیا 

۔دفعہ9 ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ اور ان کے ورثاء کے نام مندرجہ دفعات کی رو سے انتقالِ ریاست کے عوض مہاراجہ گلاب سنگھ ، حکومت ِبرطانیہ کو 75 لاکھ روپیہ نانک شاہی ،جن میں سے 50 لاکھ روپیہ اس معاہدے کے شروع ہوتے وقت اور 25 لاکھ یکم اکتوبر1846 ء کو یا اس سے قبل اداکردیں گے، یہ طے پایا۔
 تاریخ عالم میں اس طرح کا کوئی انسانیت سوز معاہدہ شاید ہی پیش آیا ہوگا ۔
 برطانوی سامراج نے انسانیت کی مٹی پلید کر کے ہر کشمیری کی قیمت سات روپے مقر ر کرکے سیاہ دل ہونے کی تصدیق کی ۔ علامہ اقبال ؒنے اس شرم ناک معاہدے کے بارے میں کہا ہے ؎
 بادِ صبا ! اگر بہ جنیوا گزر کُنی
حرفے ز ِ ما بہ مجلسِ اقوام باز گوئے
دہقان د کشت و جوئے و خیابان فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
 
اے بادصبا ! اگر بطرف جنیوا گزر ہو تو مجلس ِاقوام (لیگ آف نیشنز) تک یہ صدائے باز گشت پہنچا دیناکہ کسان ،کھیت کھلیان ،آبی ذخائر اور گلستان فروخت کردئے گئے،کشمیری من الحیث القوم فروخت کئے گئے اور نہایت ہی قلیل اور سستے دام پر فروخت کئے گئے ۔

ابوالاثر حفیظؔ جالند ھر ی نے انسانیت کے ماتھے پر اس سیاہ دھبّے بیع نامہ امرتسرکے بارے کہا ہے ؎
وادیاں،کہسار ،جنگل،پھول پھل اور سب
 اناج ڈھور ڈنگر آدمی
ان سب کی محنت کام کاج یہ مویشی
 ہوں کہ آدم زاد ہیں سب زرخرید
 ان کے بچے بچیاں ، اولاد ہیں سب زر خرید 

حفیظ ؔکچھ اس طرح بھی نوحہ کناں ہیں ؎
لُوٹ لی انسانیت کی قسمت پچھتّر لاکھ میں
بک گئی کشمیر کی جنت پچھتّر لاکھ میں
مزدور کا سرمایۂ محنت پچھتّر لاکھ میں
عورتوں کا جوہر ِ عصمت پچھتّر لاکھ میں
ملک و ملّت قوم و مال و جان پچھتّر لاکھ میں
ہاں پچھتّر لاکھ میں،ہاں ہاں پچھتّر لاکھ میں

گاندھی  ظلم وتشدد کے اس نرالے معاہدے کو ’’بِکری پتر‘‘پنڈت نہرو’’ ریاستی عوام کی نیلامی کی دستاویز‘‘ سردار بدھ سنگھ (کشمیر میں جمہوری دور کے پہلے وزیرصحت و بحالیات)کے الفاظ میں دو ڈاکوؤں کے درمیان خرید وفروخت
مولانا محمد سعیدمسعودی کے لفظوں میں نیلامی کے مال کا سند نامہ ۔

مولانا غلام رسول مہرؔ نے اس کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ’’1846ء میں انگریزوں نے کشمیر کو گلاب سنگھ ڈوگرا کے ہاتھ اس بے رحمی سے فروخت کیا کہ امریکی آبادکاری کے ابتدائی دور میں حبشی غلام بھی اس طرح نہ بِکے ہوں ‘‘ ڈوگرہ راج سے قبل سکھوں نے کشمیر پر 27 سال ( 1819 ء تا1846 ء ) حکومت کی۔

سکھوں کا دور ِ حکومت بھی کشمیریوں کیلئے بلائے ناگہانی کے عذاب سے کم نہ تھا ۔اسی دور میں جامع مسجد سر نگر پر تالا چڑھایا گیا۔پتھر مسجد کو سرکاری تحویل میں لیا گیا اور اس کی شان کو تہہ وبالا کیا گیا ۔ یہ عظیم الشان مسجد شہنشاہ جہانگیر نے اپنی بیگم نور جہاں کی یاد میں 1032ء میں تعمیر کرائی تھی ۔سکھ دورکے گورنر کرنل مہیاں سنگھ نے اپنے دور میں اس مسجد شریف کا خوبصورت فرش اُکھڑوا کر بسنت باغ کا فرش تیار کروایا ۔گائے ذبح کرنے پر پابندی لگائی گئی۔ رنجیت سنگھ جو کہ سکھ سلطنت کا حکمران ِ اعلیٰ تھا ،نے کشمیر میں یکے بعد دیگرے دس گورنر تعینات کئے، ان میں موتی رام، پھولا سنگھ ظلم روا رکھنے کی وجہ سے کافی بدنام ہوئے ۔ گلاب سنگھ اسی سکھ سلطنت کا ایک سپاہی تھا ۔رنجیت سنگھ ’’گلابو ‘‘ کی خدمات سے خوش ہو ا اور کشمیر کے ایک حصہ جموں صوبہ پر اس کو گورنر مقر رکردیا۔ اس وقت کشمیر پر سکھوں کی طرف سے امام الدین گورنر مقرر تھے۔ ہندوستان میں انگریز حکومت اپنے پر پھیلانے میں مصروف تھی اور سکھوں کے ساتھ مخاصمت شروع کی اور ’ گلابو‘ کے نام سے فوج میں پکار ے جانے والا گلاب سنگھ خفیہ طور پر انگریزوں کے ساتھ ساز باز کر چکا تھا اور لاہور دربار پر قبضہ کرانے میں اُن کی مدد کی۔ سکھوں سے انگریز حکومت نے تاوان جنگ کا مطا لبہ کیا، چونکہ وہ تاوان دینے کی حالت میں نہیں تھے ، تین بار انگریزوں سے شکست کھا کر کنگال ہوچکے تھے ۔انہوں نے ریاست کشمیر کو جموں سمیت تاوان میں دے دیا اور گوروں کی حکومت نے گلاب سنگھ کے ساتھ تحریری معاہدہ کرکے پورے کشمیر کو پچھتّر لاکھ نانک شاہی ٹکوں میں فروخت کردیا۔ یہ تحریری دستاویز  "بیع نامہ امرتسر " کے نام سے مشہور ہے۔ اسی معاہدے کے تحت کشمیر میں ڈوگرہ کا آغاز ہوتا ہے ۔انگریزوں نے کشمیر میں سکھوں کے گورنر کو دھوکہ سے لاہور بھیج دیا اور گلاب سنگھ کو پورے کشمیر پر قبضہ کرنے میں مدد کی۔ 

پونچھ راجوری میں گلاب سنگھ کو مسلمانوں کی طرف سے مزاحمت کا سا مناکرنا پڑا ۔ گلاب سنگھ نے قبضہ کے بعد وہاں عوام کا قتل عام کروایا ۔ اُن کے سرکردہ رہنماؤں مرحوم سبز علی خان اور ملّی خان کی زندہ کھالیں ا ُتروائیں۔ گلاب سنگھ نے اپنے سپاہیوں کوحکم دیا کہ مزاحمت کرنے والوں کی زندہ کھال اُتاری جائے۔ اور کھال سر سے پاؤں کی طرف اُتار نے کے بجائے پاؤں سے سر کی طرف اُتاری جائے کیونکہ یہ صورت نہایت تکلیف دہ ہوتی تھی۔ اس سے مقتول ہوش وحواس کھو بیٹھتا تھا اور یہ منظر اتنا بہیمانہ ہوتا تھا کہ جلاد بھی اس عمل کی انجام دہی سے لرزتے تھے ۔گلاب سنگھ کے حکم کی تعمیل میں ان کھالوں میں گھاس پھونس بھر کر کسی اُونچی جگہ پرلٹکایاجاتا تاکہ باقی لوگوں پر خوف و دہشت طاری ہو۔
پونچھ کے ہی سردار شمس خاں کا سر تلوار سے جُدا کروایا گیا اور ہزاروں خواتین اور بچوں کو اغواء کرکے جموں پہنچایا۔ کشمیریوں سے بیگار یعنی جبری محنت لی جاتی تھی ۔ بیگاری کیلئے مسلمانوں کو گھروں سے زبردستی پکڑ کر لے جاتے تھے ۔ ان پر بوجھ لادا جاتا تھا اور اُوپر سے سرکاری کارندے کوڑے برساتے تھے ۔ ان میں بہت سارے اسی وجہ سے فوت بھی ہوجاتے تھے۔ ڈوگرہ راج میں مسلمان اگر اپنے مکان میں کھڑکی لگاتا تو اس پر کھڑکی ٹیکس عائد کیا جاتا تھا ۔ اس خوف سے اکثر غریب اپنے گھروں میں کھڑکیاں نہیں لگاتے تھے۔ چولہا ٹیکس ،چمنی ٹیکس ،بیوی ٹیکس ، مویشی ٹیکس اور ہر پیشے پر ٹیکس وصول کیا جاتا تھا ۔ سرکاری عہدے ڈوگرا خاندان یا کشمیری پنڈتوں کے پاس تھے ۔ مسلمان ہندو جاگیر داروں کے کاشت کار تھے اور وہ ظالم ساری کمائی ہڑپ کرتے تھے۔ گائے کے ذبیحہ پر مسلمان کو عمر کی قید کی سزا دی جاتی تھی ،مسلمان زمینداروں سے زمینیں زبردستی چھین لی گئیں۔ غرض ڈوگرہ راج کشمیری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ 1846 سے لے کر 1947 ء تک مہارجہ گلاب سنگھ اور اُن کے بیٹوں رنبیر سنگھ، پرتاب سنگھ ، ہری سنگھ نے یکے بعد دیگرے کشمیریوں پر حکمرانی کی۔

 تاریخ گواہ ہے کہ کشمیر " بیع نامہ امرتسر " کے تحت ڈوگرہ راج کے ظلم میں ایک سو ایک سال تک ہچکولے کھاتا رہا ۔دوسری عالم گیر جنگ کے بعد جب سلطنت برطانیہ پر زوال آنا شروع ہوا اور دنیا کے مختلف حصوں میں آزادی کے لئے تحریکیں شروع ہوئیں ،تو اس کے اثر سے کشمیر کا متاثر ہو نا بھی یقینی تھا۔ یہاں کشمیر میں شخصی راج کے خلاف جدوجہد  کا آغاز 1924 ء میں ریشم خانہ سری نگر میں کام کرنے والے مزدوروں کے احتجاج سے ہوا ۔ یہ مزدور اپنے سلب شدہ حقوق کی بازیابی کے لئے سڑکوں پر نکل آئے اور ڈوگرہ فوج نے ان نہتے مزدوروں پر اندھا دھند لاٹھیاں برسائیں اورظلم و زیادتی کی انتہا کردی ۔ اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے پنجابی مسلمان جج چوہدری نیاز احمد کو بحثیت انکوائری کیمشن مقررکیا گیا لیکن وہ ڈوگرہ حکومت کے اشارے پر گنجلک تفتیش اور رپورٹ پیش کرنے میں کافی طویل عرصہ لگادیا گیا کہ ریشم خانہ کے مظلوم مزدور عاجز آکر مایوس ہوئے اور معاملہ بالآخر گول ہوا۔ کشمیریوں کو ڈوگرہ شاہی سے نجات حاصل کرنے کے لئے درد وکرب اور غم و اندوہ کے ہمالیائی سلسلے عبور کرنے پڑے لیکن شخصی راج سے خلاصی پانے کے ساتھ ہی جمہوریت کے دیو استبداد کا تر نوالہ بن گئے۔

(بشکریہ ...... یسری سید)

No comments:

Post a Comment