Monday, May 11, 2020

محکم بیکری لاھور عادل جاوید کی تحریر

اگرچہ ان کے ساتھ ہماری خاندانی دوستی نسلوں پر محیط ہے مگر کچھ ب چ وجوہات کی بنا پر اب میں یہاں جانے سے گریز کرتا ہوں بےشک  یہ لاہور کا اثاثہ ہے۔۔۔

محکم بیکری
سید محکم الدین اینڈ سنز‘‘ بیکری ایک نوجوان، جس کا نام محکم تھا، نے قائم کی تھی۔ اس کا والد قمر الدین جالندھر کینٹ میں برطانوی راج کے دوران فوج کو چائے سپلائی کیا کرتا تھا۔ وہاں اس کے اُس وقت کے پنجاب کے گورنر سر چارلس ایچی سن (ایچی سن کالج کے بانی) سے اچھے تعلقات قائم ہوگئے تھے۔ لیڈی ایچی سن بہت مہربان خاتون تھیں اور وہ انواع و اقسام کے کھانے پکانے میں مہارت رکھتی تھیں۔ سید قمر الدین کی درخواست پر لیڈی نے مہربانی کرتے ہوئے اس کے بیٹے، محکم الدین کو مغربی روایات کے مطابق پکانے کی تراکیب سکھائیں۔ اُس وقت اُس نوجوان کے ذہن میں لاہور میں بیکری کھولنے کا خیال پیداہوا۔ چنانچہ اُس نے یکم جنوری 1879ء کو لاہور میں یہ مذکورہ بیکری قائم کی۔ 1879ء میں محکم دین نے دو مرلے کا پلاٹ سوا روپے یعنی ایک روپے پچیس پیسے میں خرید کر یہ بیکری قائم کی تھی۔ انہوں نے لاہور میں پہلی مرتبہ بیکری مصنوعات جیسے کہ پیٹیز، پیسٹری، بسکٹ، کیک وغیرہ فروخت کرنا شروع کیے تھے۔ ان کے ابتدائی گاہکوں میں انگریز تھے لیکن پھر رفتہ رفتہ لاہور کے پڑھے لکھے طبقے کے افراد بھی ان کے گاہک بن گئے۔ محکم دین اکثر اپنی بیکری مصنوعات ایک باسکٹ میں رکھ کر لاہور کے گلی کوچوں میں راہگیروں کو مفت بانٹتے تھے تاکہ لوگ اس نئی سوغات سے واقف ہو سکیں۔ ان کے بنائے کرسمس کیک بھی لاہور کے اولین اور بےحد مقبول تھے۔محکم دین کا انتقال 1947ء میں ہوا جس کے بعد ان کے بیٹوں نے یہ بیکری سنبھالی۔ ان کے ایک بیٹے خوشبخت حسین نقوی نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بیکری کی مصنوعات کا معیار برقرار رکھا۔ 1995ء میں خوش بخت کے انتقال کے بعد سے ان کا بیٹا محکم نقوی اس بیکری کو کامیابی سے چلا رہا ہے۔ اس کے افتتاح کے موقع پر برطانوی حکومت کے بہت سے افسران اور شہر کی معزز شخصیات موجود تھیں جبکہ لیڈی ایچی سن نے افتتاح کرتے ہوئے فیتہ کاٹا۔ اُس وقت بیکری کی مصنوعات مہنگی ہوتی تھیں اور عام شہری اُنھیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، چنانچہ اُن کے گاہک زیادہ تر برطانوی شہری اور کچھ شہر کے نامور لوگ، جن میں اہم علمی و ادبی شخصیات، جیسا کہ طفیل ہوشیار پوری، وقار انبالوی، محمد طفیل (ایڈیٹر نقوش)، آغا شورش کاشمیری، مولانا کوثر نیازی، پروفیسر غلام مصطفی تبسم، ڈاکٹر نذیر احمد، ڈاکٹر اجمل خان اور بہت سے دیگر اہم افراد ان کی بیکری کے باقاعدہ گاہک تھے۔ محکم الدین نے بتایا …’’ علامہ اقبال بھی یہاں آیا کرتے تھے اور میرے دادا کے ساتھ گھنٹوں مذہبی اور سیاسی معاملات پر گفتگو کیا کرتے تھے۔‘‘ کئی عشرے بعد نگینہ بیکری ادبی شخصیات کی توجہ کا مرکز بن گئی، تاہم حقیقت یہ تھی، کہ نگینہ بیکری دراصل ایک چائے کی دکان تھی۔ اس کا مالک ایک نوجوان سکھ تھا اور اس کو بیکری کی مصنوعات محکم بیکری سے ہی سپلائی کی جاتی تھیں۔ شروع میں بیکری کی مصنوعات کو زیادہ تر برطانوی افسران، عیسائی اور اینگلو اینڈین اور کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہی خریدتے تھے کیونکہ عام طورپر مقامی باشندے بیکری مصنوعات کو ’’غیر ملکی خوراک‘‘ سمجھ کر ناپسند کرتے تھے۔ تقسیم کے بعد مال روڈ پر ایک اور بیکری قائم ہوئی لیکن وہ زیادہ نہ چل سکی۔ محکم بیکری نے آرڈر پر کیک بنانے کی روایت شروع کی۔ گزشتہ صدی کے آخری نصف حصے میں کرسمس اور عیسائیوں کی شادی بیاہ کے لیے کیک تیار کرنا محکم بیکری کا خاصا تھا۔ بعد میں مسلمانوں نے بھی عید میلاد النبی اور دیگر اسلامی تہواروں کے لیے کیک خریدنا شروع کر دیے۔محکم بیکری ایک پاؤنڈ سے لے کر تین سو پاؤنڈ وزنی کیک تیار کرتی ہے۔ ان میں خشک میوہ جات استعمال کیے جاتے ہیں۔ شادی بیاہ کے کیکس میں مختلف مشروبات کے ذائقے بھی شامل کیے جاتے ہیں۔ یہاں پانچ سو پچاس سے لے کر پچپن سو پچاس روپے فی پاؤنڈ کی مالیت کے کیکس بھی دستیاب ہیں۔ عام طورپر ان کے ہاں روزانہ پندرہ سے بیس کیک فروخت ہوتے ہیں لیکن خاص مواقع پر ان کی فروخت بڑھ جاتی ہے۔ بہت سے لوگ یہاں سے کیک یادگار کے طو ر پر بھی خریدتے ہیں۔ وہ اسے لاہور کی سیر کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ اہم افراد میں ذوالفقار علی بھٹو اور فاروق الغاری لاہور قیام کے دوران محکم بیکری کی مصنوعات استعمال کیا کرتے تھے۔ اس طرح یہ بیکری لاہور کے ثقافتی وروثے کا ایک حصہ ہے۔ محکم الدین نے بتایا کہ وہ فروخت کم ہونے سے پریشان ہو کر کوالٹی کم نہیں کرتے ہیں۔ ان کے ہاں کام کرنے والے کئی عشروں سے کام کر رہے ہیں، چناچہ وہ ذائقے اور معیار پر سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں۔انیسویں صدی کے آخری عشرے سے تعلق رکھنے والی مصورہ لیڈی ہیرسن تھیں۔ وہ میوسکول آف آرٹس میں تعلیم اور تدریس کے فرائض سرانجام دیتی رہیں تھیں۔ وہ سید محکم الدین کی بہت اچھی دوست تھیں۔ محکم الدین کے بیان کے مطابق اُن کی انگلیاں بہت خوبصورت تھیں۔ ایک دن ہیرسن نے محکم الدین سے کہا …’’کیا تم میری انگلیوں جیسے بسکٹ بنا سکتے ہو؟‘‘ اُس نے جواب دیا…’’کیوں نہیں‘‘ اور پھر ان کی انگلیوں سے مشابہت رکھنے والے بسکٹ بنا دیے۔ وہ اُس وقت زیادہ مزیدار تو نہ بن سکے لیکن وہ مشہور ہوگئے۔ اس کے بعد گاہک اُن سے نام لے طلب کرتے ’’Harrison’s Fingers’‘‘ دے دو۔ اس طرح لیڈی ہیرسن آج بھی ان بسکٹوں کی وجہ سے یاد کی جاتی ہے۔ یہ بیکری آج بھی نیلا گنبدکے قریب قائم ہے اور لاہور کی ثقافت کا حصہ ہے۔یوں تو اب لاہور میں ہزاروں بیکریاں قائم ہیں جن کی تیار شدہ اشیا اپنے ذائقے اور معیار میں لاجواب ہوں گی لیکن محکم دین بیکری ہماری ثقافت اور تاریخ کا حصہ ہے۔ آپ جب بھی اس بیکری سے کوئی آئٹم خریدیں گے تو اس کے ذائقے میں کہیں نہ کہیں ڈیڑھ سو سال پرانا خالص انگریزی روایتی ذائقہ ضرور شامل ہوگا جو ان بیکری مصنوعات کو بہت خاص بنا دیتا ہے۔

No comments:

Post a Comment