Sunday, May 17, 2020

زھرہ فونا جعلی امام مہدی بقلم ھارون پاشا


ایک خاتوں امام مہدی کے پیچھے کراچی کے عوام جمعے کی نماز پڑھی۔ وہ سرکاری مہمان بھی تھیں (( 1970 کا ایک تاریخی واقعہ)

زہرا فونا امام مهدی کی امی جان

جب اللہ کے احکامات سے انکار اور قرآن کو سمجھنے سے قاصر بھیڑ ضعیف العقائدی کی دلدل میں دھنسے ہوں تو ایسا کچھ ہوتا ہے
یوں ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سن 70 کی بات ہے کہ جب انڈونیشیا میں صدر سوہارتو کی حکومت تھی اور پاکستان میں جنرل یحیٰی خان کا مارشل لاء تھا ، انڈونیشیا کی ایک خاتون "زہرہ فونا" نے حضرت مہدی ؑ کی والدہ ہونے کا دعویٰ کر دیا۔
اس کا کہنا تھا کہ اس کے رحم میں پرورش پانے والا بچہ حضرت مہدیؑ ہے۔
پھر کچھ یوں ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئی ، کیونکہ اسکے پیٹ سے کان لگا کر سننے پر اذان اور تلاوت قران کی آواز آتی تھی ،
اور پھر کچھ یوں ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ خبر پورے انڈونیشیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ جب یہ خبر انڈونیشی حکام تک پہنچی تو سب سے پہلے انڈونیشیا کے اس وقت کے نائب صدر آدم مالک نے زھرا فونا کو اپنی رہائش گاہ پر مدعو کیا اور دوران ملاقات اس کے پیٹ پر کان لگا کر اذان سننے کا شرف حاصل کیا اس کے بعد انڈونیشیا کے وزیر مذہبی امور محمد ڈیچلن نے بھی اذان سنی اور ایک بیان جاری کیا کہ امام شافعی بھی تین سال اپنی ماں کے رحم میں رہے تو امام مہدی کیوں رحم سے اذان نہیں دے سکتے
اورپھر یوں ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد تو گویا انڈونیشی حکام کی زہرہ فونا سے ملاقات کی لائن لگ گئی۔ خود صدر سوہارتو اور ان کی بیگم نے زہرہ سے ملاقات کی ، لوگوں نے زھرا کو مریم ثانی کا درجہ دے دیا ۔ زہرہ کی شہرت انڈونیشیا سے نکل کر پورے عالم اسلام میں پھیل گئی اور مختلف ممالک نے زھرا فونا کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دی ہماری عسکری حکومت کو بھی یہ شرف حاصل ہوا تاکہ لوگوں کے اذہان کو تبدیل کیا جاسکے اور ان کو روٹی کے چکر سے نکال کر آخرت پر مرکوز کروانے کیلئے زھرا کو سرکاری دعوت دے ڈالی
زہرہ فونا کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی علماء سے اس بات کی تصدیق چاہی گئی کہ خاتون کے پیٹ میں بچہ ،واقعی امام مہدی ہی ہیں ۔ چنانچہ مولانا احتشام الحق تھانوی اور مولانا شفیع اوکاڑوی نے باری باری خاتون کی بچہ دانی کے قریب کان لگا کر اذان سننے کے بعد پورے یقین کے ساتھ بیان جاری کیا کہ اذان کی آواز خاتون کے اندرونی حصوں سے ہی آرہی ہے اور بس اب امام مہدی کی آمد آمد ہے۔
ہمارے علماء حضرات کے لئے شاید تحقیق آواز سننے کی حد تک تھی ۔ انہیں صرف ریڈیو اور ٹی کا علم تھا ، اس وقت ٹیپ ریکارڈر کا کوئی خاص تصور نہیں تھا اگر کسی اشرافیہ کے گھر ٹیپ ریکارڈر تھا بھی تو بڑے ڈبے نما تھا ، انہوں نے اس آواز کے منبع کی مزید کرید و جستجو مناسب نہ سمجھی کہ یہ خبر ہی اس قدر دل خوش کن تھی کہ برادران اسلام مزید کچھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے قاصر ہوگئے۔ نہ صرف ہمارے علماء بلکہ انڈونیشی جید علماء، اور عالم اسلام کے دیگر ممالک کے عالم بھی اس جھانسے میں آگئے
پھر کچھ یوں ہوا کہ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی کی تقریباً پانج لاکھ سے زائد ابادی نے اور تمام مسالک اور مکاتب فکر کے جید علماء نے زھرا فونا کی امامت میں جمعہ نماز کی ادائیگی بجا لائے ۔
رہی بات زہرہ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی تو اسے ضعیف الاعتقادی اور جہالت ہی کہا جاسکتا ہے کہ کہ اگر نعوذ باللہ امام مہدی اس کے بطن میں موجود تھے بھی تو ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے کے لئے ان کی پیدائش کا انتظار تو کرلیا جاتا۔ یہ کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ وہ عورت اپنی ٹانگیں کعبہ کی طرف کھول کر بیٹھ گئی اور اس کی ٹانگوں کے درمیان مائیک اسٹینڈ رکھ دیا جاتا اور عوام معہ علما و مشائخ حضرات اسکے پیچھے امام مہدی کی اقتداء میں نماز ادا کرتے ہیں ۔۔
لاحول ولا قوت الا باللہ!!!
یہی ضعیف الاعتقادی ہم مسلمانوں کے لئے باعث زوال بنی ہوئی ہے
قران پاک کی سورہ حجرات کی آیت ۴۹ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔”ترجمہ
”اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پیشمانی اٹھاؤ ۔”
پھر کچھ یوں ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند ڈاکٹروں کے لئے اس بات پر یقین کرنا مشکل تھا۔ چنانچہ انہوں نے صحیح صورت حال کو جاننے کی ٹھان لی۔ مگر زہرہ فونا ہر دفعہ انہیں چکر دے کر نکل جاتی۔ مسلسل کوشش کے بعد ایک دن ڈاؤ میڈیکل کالج کے ڈاکٹر اسے قابو کرنے میں کامیاب ہو گئے اور دوران تفتیش زہرہ فونا کی ٹانگوں کے درمیان پھنسا ہوا ننھا منا ٹیپ ریکارڈر برآمد کرلیا۔
پھر یوں ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی روز زھرا فونا پاکستان سے براستہ انڈیا انڈونیشیا بھاگ گئی اور پاکستانیوں نے مزید ماموں بننے کا عظیم موقع ہاتھ سے کھو دیا۔
پھر کیا ہونا تھا ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں سب کچھ ہوتا ہے
پھر کچھ یوں ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم افسوس اور ملال کی لکیر پیٹتے رہہ گئے
بعد میں زہرہ فونا اور اس کے شوہر انڈونیشیا میں گرفتار ہوئے اور انہوں نے قبول کیا کہ یہ سب انہوں نے دولت اور شہرت حاصل کرنے کے لئے کیا تھا
پھر کچھ یوں ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا آج بھی اس بات کو یاد کرکے مسلمانان عالم پر ہنستی ہے
نوٹ ۔۔۔ اس تحریر کا مقصد قطعی کسی کی دل آزاری نہیں بس ایک واقعہ ہوا تھا جس کا تذکرہ سیاق و سباق سے کرنا ضروری تھا
 منقول

No comments:

Post a Comment