Monday, May 11, 2020

لکھاری سعید جاوید کے قلم سے ایسا تھا میرا کراچی


منگھو پیر کے مزار کے مگر مچھ ۔ میری کتاب ایسا تھا میرا کراچی سے اقتباس۔
۔
  یہ سادہ سا ایک کمرے کا مزار ہوتا تھا۔ آس پاس ایک دو درخت لگے تھے جن پر بے شمار رنگ برنگی جھنڈیاں اور خواتین کے دوپٹے اور پراندے وغیرہ ٹنگے ہوئے تھے۔مزار کے احاطے میں بھی کچھ ملنگ بیٹھے ہوئے تھے۔ہم لوگوں نے حسب روایت فاتحہ پڑھی اور باہر نکل آئے ۔ مزار کے پہلو سے سیڑھیاں نیچے کی طرف اترجاتی تھیں ۔کچے راستے پر کچھ دور چلنے کے بعد ایک احاطہ نظر آتا جہاں ایک بے حد گندے اور بدبو دار تالاب میں درجنوں کے حساب سے دیو قامت مگر مچھ تیرتے پھرتے تھے۔ ان کا صرف سر اور جسم کا بالائی حصہ ہی نظر آتا تھا، باقی وہ پانی میں ہی ڈوبے رہتے تھے ۔ ان کے کچھ ڈھیلے اور سست الوجود ساتھی کنارے پر آنکھیں موندھے بے سدھ پڑے ہوئے تھے ۔ کبھی کبھارآنکھیں کھولتے یا لوٹنیاںلگاتے تو تب ہی پتہ لگتا کہ وہ بھی کوئی زندہ مخلوق ہیں۔ 
وہاں بیان کی گئی کچھ کہانیوں کے مطابق ان میں سے چند ایک کی عمریں تو اتنی زیادہ تھیں کہ وہ بابا جی کے زمانے کے یعنی کوئی چھ سات سو برس پرانے تھے ۔ظاہر ہے جب اس قسم کی روایتیں مذہب کے ساتھ نتھی کر دی جائیں تو کس کی ہمت ہے کہ بیان کی گئی حقیقتوںسے انکار کرے! سب ان کہانیوں کو تسلیم کرتے اور سنانے والے کے کلام پر سر جھکا لیتے تھے حالانکہ سائنسی تحقیق کے مطابق ایسے مگر مچھوں کی اوسط عمر ستر اسی برس سے زیادہ نہیں ہوتی۔مگر وہاں بیٹھ کر ملنگوں کے سامنے اس بات پر بحث کریں تو ان کے ہاتھوں بے عزتی اور تشدد کے امکانات کافی روشن رہتے ہیں۔ 
مزار کی زیارت کے لیے آئے ہوئے لوگ ان کو کھلانے کے لیے اپنے ساتھ گوشت کے بڑے بڑے پارچے بھی لاتے تھے ۔ تاہم وہاں کا رکھوالا ایک مخصوص وقت پر بلند آواز سے سیٹی بجاتا اور منہ سے ایک خاص آواز نکالتا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑی سی لاٹھی ہوتی تھی ۔ یہ آواز سنتے ہی پانی میں ہلچل مچتی اور سب مگر مچھ تیرتے ہوئے تالاب کے کنارے پر آجاتے ۔پھر وہ ایک ہاتھ میں لاٹھی اور دوسرے میں کوئی آدھ سیر گوشت کے پارچے لے کر کسی بھی مگر مچھ کے قریب جاتا اور لاٹھی سے اس کے سر پر ہلکے سے ٹھوکا دیتا۔ وہ مگر مچھ اپنا بھاڑ جیسا منہ کھولتا تو یہ اس میں گوشت پھینک دیتا ۔ راتب ملتے ہی یہ تیرتا ہوا پیچھے گہرے پانی میں چلا جاتا اور اس کی جگہ لینے کوئی دوسرا آ جاتا تھا۔ یوںیہ سلسلہ جاری رہتا تھا ۔غرض آدھے گھنٹے میں وہ ملازم سب کو کھلا پلا کر تالاب سے باہر آجاتا اور واپس مزار کی طرف چلا جاتا ۔ اس کے بعد ایک بار پھر ہر طرف سناٹا چھا جاتا تھا 
سعید جاوید۔  ۔۔  ایسا تھا میرا کراچی

No comments:

Post a Comment