Tuesday, May 19, 2020

آج آکھاں وارث شاہ نوں امرتا پریتم

اسلام علیکم  !!
اردو ادب کی حقیقی داستان کے ساتھ حاضر ہوں  !! یہ سارا مواد اردو ادب کی تاریخ سے اکھٹا گیا ہے  !!  یہ داستان ہے!  
امرتا ساحر اور امروز کی!!  اخر میں کمنٹ کر کے بتانا ضرور کہ ان تینوں میں سب سے زیادہ مظلوم کردار کون تھا ؟؟ میری نظر میں امروز  !! اور امرتا کی اب بیتی رسیدی ٹکٹ پی ڈی ایف میں میسر ہے کسی کو چاہئے تو انباکس میں میسج کر دے  !! چلیں شروع کرتے ہیں محبت کی داستاں  !! 
......
امریتا پریتم ایک خوبصورت اور معصوم خاتون تھی، جو بدقسمتی سے یا خوش قسمتی سے اس علاقے میں پیدا ہوئی جو اب پاکستان کا حصہ ہے۔ 1919ء میں پاکستان میں پیدا ہوئی اور تقسیم ہند کا قتل عام دیکھتے دیکھتے دلی جا بسی۔ اس انوکھی اور لاڈلی لڑکی کی شادی سولہ سال کی عمر میں پریتم سنگھ سے کردی گئی۔ شادی کے بعد امریتم کور امریتا پریتم بن گئی۔ اب شادی ہوگئی، جس میں امریتا کی مرضی شامل نہیں تھی۔ محبت کے بغیر شادی نے امریتا کو لفظوں سے کھیلنے کا ہنر دے دیا۔ شادی شدہ تھی، لیکن محبت کر بیٹھی اور وہ بھی اردو ادب کے ایک عظیم شاعر اور نغمہ نگار سے۔ ایسی بے پناہ محبت کی کہ غم اور درد میں اضافہ ہوگیا۔ اپنے شوہر کو چھوڑ دیا۔ یہ 1960 کا زمانہ تھا۔ پریتم سنگھ سے ان کے دو بچے تھے۔ دو بچے تھے تو کیا ہوا، کہتی تھی، محبت تو وہ اس شاعر سے کرتی ہیں، جس کے لئے شوہر سے طلاق لی ہے۔ مرتے دم تک امریتا نے اس شاعر سے محبت نبھائی اور خوب نبھائی۔ کہا جاتا ہے کہ امریتا کو یک طرفہ محبت تھی، لیکن اس شاعر نے بالی وڈ کے لئے جتنے بھی نغمے لکھے، ان تمام نغموں میں امریتا کا عکس تھا۔ وہ شاعر بھی ان سے محبت کرتا تھا۔ اس شاعر نے کسی اور خاتون سے بھی دل لگایا، اس وجہ سے امریتا کا دل ٹوٹا اور ایسا ٹوٹا کہ امریتا دنیا کی عظیم ادبی شخصیت بن گئیں۔

اس کے بعد امریتا کی زندگی میں ایک اور انسان آیا۔ وہ اس سے محبت تو نہیں کرتی تھی، لیکن بغیر شادی کے ان کے ساتھ پنتالیس برس رہیں، اس پر انہیں گالیاں بھی پڑیں، دھمکیاں بھی دی گئیں، لیکن وہ اس انسان کے ساتھ رہیں۔ کہانی میں اس انسان کا بھی ذکر آنے کو ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کے ساتھ امریتا پنتالیس سال رہیں، اس کے ساتھ جسمانی رشتہ بھی نبھایا اور وہ شخص جانتا تھا کہ امریتا کو فلاں شاعر سے محبت ہے۔ اس کے باوجود وہ امریتا سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ 1980ء میں وہ شاعر جس سے امریتا کو عشق تھا، وہ دل کا دورہ پڑنے سے مر گیا، اس شاعر کا مرنا امریتا کے لئے عظیم ترین سانحہ تھا۔ وہ تنہا ہو گئی تھی، وہ خود کہتی تھی کہ اب وہ برباد ہو گئی ہیں۔ امریتا ایک خوبصورت خاتون تھی، لیکن ان کے الفاظ بھی بہت خوبصورت تھے۔ پنجابی ادب اور امریتا  ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔

کیا کمال خاتون تھی، گیارہ برس کی عمر میں ماں مر گئی، باپ سنیاسی بن گیا، ان کے باپ کا نام کرتار سنگھ تھا۔ سولہ برس کی عمر میں شادی ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا رنگ سفید تھا، پتلے پتلے ہونٹ تھے، چال میں مستی اور شرارت تھی اور بدن میں محبت کی آگ تھی اور روح میں روحانیت ۔ 1960ء میں دو بچوں کی ماں امریتا پریتم چالیس برس کی ہو چلی تھی، اج اکھاں وارث شاہ نوں، ان کی یہ نظم پاکستان میں بھی بہت مقبول ہوئی۔ احمد ندیم قاسمی نے اس نظم پر تبصرہ کیا تھا کہ تقسیم سے دکھی لاکھوں لوگ یہ نظم اپنی جیبوں میں رکھتے تھے اور دن میں دس دس بار پڑھتے تھے اور روتے تھے۔ یہ نظم پاکستانی فلموں میں بھی استعمال کی گئی۔

تقسیم کے بعد امریتا پاکستان سے دلی چلی گئیں تو دل پاکستان میں اس عظیم شاعر کے سپرد کر کے آئیں جسے دنیا ساحر لدھیانوی کہتی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد امریتا دلی میں براڈ کاسٹر بن گئی، پنجابی میں شاہکار نظمیں، کہانیاں لکھنا شروع کر دیں، اتنی خوبصورت اور حسین شاعرہ تھی کہ نوجوان ان سے ملنے کے لئے ٹرپتے رہتے تھے۔ کئی ایوارڈ سمیٹے، 1986ء سے 1992ء تک بھارتی راجیہ سبھا کی رکن رہی۔  پنجابی ادب میں ان کا ڈنکا بجتا تھا۔ وہ  بہت مقبول تھی۔ ان کے نام کے لاہور کے علاوہ پاکستان کے ان علاقوں میں بھی چرچے تھے جہاں پنجابی بولی اور سمجھی جاتی تھی۔
۔ امریتا کہتی ہیں کہ ساحر کے لفظوں میں جادو تھا یا اس کی خاموش نظروں کا اثر کہ انہیں ساحر سے عشق ہو گیا۔  جب بھی ان سے ملتا تھا۔ خاموش بیٹھا رہتا تھا۔ وہ چپ چاپ سگریٹ پیتا، اور آدھی سگریٹ پی کر بجھا دیتا، اور پھر ایک نیا سگریٹ سلگا دیتا۔ جب وہ چلا جاتا تو سگریٹ کے ٹکڑے وہاں اس کے گھر میں رہ جاتے، وہ ان سگریٹ کے ٹکڑوں کو سنبھال کر الماری میں رکھ دیتی تھی۔ پھر اکیلے میں ایک ایک ٹکڑے کو ہاتھ لگاتی تھی اور ایسا محسوس ہوتا، جیسے وہ ساحر کے ہاتھ کو چھو رہی ہو۔ ساحر اور امریتا کا مسئلہ یہ تھا کہ دونوں ذاتی زندگی کے بوجھ میں دبے تھے۔ ساحر نے ایک نظم لکھی تھی اور فریم کرا کر امریتا کو بھجوا دی تھی۔ اس نظم کا نام تھا تاج محل۔ امریتا نے مرتے دم تک وہ نظم سینے سے لگا کر رکھی۔ اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر۔۔۔ ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق۔۔۔
پھر امریتا کی زندگی میں ایک اور انسان آیا۔ اس کا نام تھا امروز۔ امروز جانتا تھا کہ امریتا کو ساحر سے عشق تھا، لیکن وہ پروا نہیں کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اگر اس کو ساحر سے عشق ہے تو مجھے اس سے عشق ہے۔ اس میں امریتا کا کیا دوش۔ پھر یہ تینوں آپس میں ملتے بھی تھے، اکھٹے بیٹھ کر پیتے بھی تھے۔ امریتا کہتی تھی خدا مارنا مجھے چاہتا تھا مار ساحر کو دیا۔ ساحر کی موت پر امریتا بکھر کر رہ گئی۔ اندر جیت جسے دنیا امروز کہتی ہے، یہ امروز ایسا عاشق بنا کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔ یہ بھی فلمی انداز میں امریتا کی زندگی میں داخل ہوا۔ امریتا پریتم کہتی ہیں کہ ان کے اور ساحر کے درمیان دو دیواریں تھی جس کی وجہ سے وہ اکھٹے نہ ہو سکے۔ ایک خاموشی کی دیوار تھی، جو ہمیشہ برقرار رہی، دوسری دیوار زبان کی دیوار تھی، میری زبان پنجابی تھی، میں پنجابی کی شاعرہ تھی اور ساحر اردو زبان کا شاعر تھا۔ ان دیواروں نے ہمیشہ ہمیں جدا کئے رکھا۔ اس رشتے کا اس سے دردناک انجام اور کیا ہوسکتا تھا۔

امروز عظیم مصور تھا اور امریتا پنجابی ادب کی عظیم شاعرہ۔ دونوں کی خوب نبھی۔ امروز سکوٹر پر امریتا کو آل انڈیا ریڈیو چھوڑنے جاتا تھا اور کہتا تھا کہ امریتا اس کی پیٹھ پر اپنی انگلیوں سے ساحر ساحر لکھتی رہتی تھی۔ وہ کہتا تھا پاگل پن کی حد تک امریتا کو ساحر سے عشق تھا۔ سکوٹر سے دونوں پھر کار پر آگئے، پھر اکھٹے رہنے لگے، پھر جسمانی تعلقات استوار ہوئے، اکھٹے کھانا بناتے، اکھٹے رہتے۔ لیکن امروز کہتا امریتا کو عشق صرف ساحر سے تھا اور اس حقیقت سے وہ واقف تھا۔ اور اس حقیقت کو انجوائے کرتا تھا۔ اس کے بعد دنیا نے امریتا کی شہرت کا دور دیکھا۔ دولت تھی، شہرت تھی، امریتا کے قلم کا جھنڈا دنیا بھر میں لہرا رہا تھا۔ نظمیں عام و خاص میں مشہور تھیں۔ 
 لیکن ساحر کی موت نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امریتا کو غم زدہ کر دیا تھا۔ امریتا کا ایک دلچسپ جملہ ہے۔ وہ کہتی ہیں دنیا کے تمام انسانوں میں روحانیت ایک ہوتی ہے، لیکن مذہب کئی ہوتے ہیں۔
۔ نئی صدی آ رہی تھی، پرانی صدی جا رہی تھی، امریتا پریتم اب اسی سال کی ہو چکی تھی۔ امروز ان کے ساتھ تھا۔ 31 اکتوبر 2005 کو وہ انتقال کر گئی۔ امریتا نے آخری خط امروز کے نام لکھا تھا۔ میں تمہیں پھر ملوں گی، کہاں، کس طرح، نہیں جانتی۔ یہ دن امروز کے لئے بہت دردناک تھا۔ امریتا نے جس سے عشق کیا، وہ پہلے مر چکا تھا اور جس نے امریتا سے عشق کیا، اسی کی گود میں امریتا نے دم توڑ دیا۔
ساحر کی ساری شاعری امرتا کےنام تھی  اس بات کا ساحر نے کئی دفعہ زکر کیا  !! ساحر کے لفظوں سے امرتا کے لئے محنت چھلکتی تھی 
میں کسی کام کے سلسلے میں دلی آیا ہوا تھا جہاں امرتا اور امروز سے میری پہلی ملاقات ایک ہوٹل میں ہوئی اور میں نے ہی امرتا کو ہوٹل بلایا تھا میں اس دن بہت اداس تھا لیکن امروز کے امرتا کی زندگی میں ہونے کی وجہ سے نہیں یہ ملاقات بہت دلچسپ نہیں رہی 

ہم تینوں ایک ہی میز پر ہم پیالہ ہوئے اور جب تقریباً رات کے ساڑھے دس بجے وہ لوگ چلے گئے تو خالی گلاس ویسے ہی میز پر پڑے رہے اس رات میں نے ایک نظم لکھی اور امرتا کو تقریباً رات کے گیارہ بجے ٹیلی فون کے ذریعیے سنائی اور بھی بتایا کہ میں ان تینوں گلاسوں میں باری باری شراب ڈال کر پی رہا ہوں 

محفل سے اٹھ جانے والو 
تم لوگوں پر کیا الزام
تم آباد گھروں کے باسی 
میں آوارہ اور بدنام

میرے ساتھی , میرے ساتھی 
میرے ساتھی خالی جام

دو دن تم نے پیار جتایا 
دو دن تم سے میل رہا
اچھا خاصا وقت کٹا اور 
اچھا خاصا کھیل رہا

اب اس کھیل کا فکر ہی کیسا 
وقت کٹا اور کھیل تمام

تم نے ڈھونڈی خوشی کی دولت 
میں نے پالا غم کا روگ
کیسے بناتا کیسے نبھاتا 
یہ رشتہ اور یہ سنجوگ 

میں نے دل کو دل سے تولا 
تم نے مانگے پیار کے دام

تم دنیا کو بہتر سمجھے 
میں پاگل تھا خوار ہوا
تم کو اپنانے نکلا تھا 
خود سے بھی بیزار رہا

دیکھ لیا گھر پھونک تماشہ 
جان لیا اپنا انجام

"میں ساحر ہوں" سے اقتباس

اَمرتا پریتم نے ساحر لدھیانوی کو ٹُوٹ کر چاھا، مذھب تھا یا ساحر کا لا اُبالی پن اُن دونوں کی شادی نہ ھو سکی۔ ساحر کے جانے کے بعد امرتا نے زندگی کے باقی ماندہ دن امروز کے ساتھ گزارے. امروز ایک پینٹر جو امرتا کی آنکھوں کے عشق میں مبتلا تھا اور آ خری وقت تک اس کی دیکھ بھال کچھ سیواکاریاں ھی کرتا رھا۔ وہ ان لوگوں میں سے ھے جو صرف محبت دینا جانتے ھیں ، معکوس رابطوں پہ ایمان نہیں رکھتے۔ جب سے امرتا گئی اس نے بھی برش اور کینوس کو ھاتھ نہیں لگایا۔

اب حوض خاص والے اس گھر میں جابجا امروز کی بنائی ہوئی امرتا کی تصویریں، سندھی اجرکیں، بلھے شاہ کی خطاط ہوئی کافیاں، مختلف چائے کی پتیاں اور ڈھیروں کتابیں ہر سانس کے ساتھ امرتا کو یاد کرتی ہیں۔ یوں تو یہ گھر چالیس برس کی رفاقت کی بہت سی یادوں سے اٹا پڑا ہے مگر ایک نظم ہے جو امرتا نے خاص امروز کے لئے کہی۔

امروز نے سب کچھ جانتے ھُوئے بھی اَمرتا کو بے حد پیار دیا اور جی جان سے خیال رکھا۔ یہ پنجابی نظم امرتا نے امروز کے لیے لکھی۔

”میں تینوں فیر مِلاں گی“

میں تینوں فیر ملاں گی
کِتھے؟ کس طرح؟ پتا نئیں

شاید!! 
تیرے تخیل دی چِھنڑک بن کے
تیرے کینوس تے اتراں گی

یا ھورے !! تیرے کینوس دے اُتے
اک رھسمئی لکیر بن کے
خاموش تینوں تکدی رواں گی

یا ھورے !! سورج دی لو بن کے
تیرے رنگاں وچ گھُلاں گی

یا رنگاں دیاں باھنواں وچ بیٹھ کے
تیرے کینوس نُوں ولاں گی

پتا نئیں کس طرح، کتھے
پر تینوں ضرور مِلاں گی

یا ھورے !! اِک چشمہ بنڑیں ھوواں گی

تے جیویں جھرنیاں دا پانی اڈ دا اے
میں پانی دیاں بُونداں
تیرے پِنڈے تے مَلاں گی
تے اک ٹھنڈک جئی بن کے
تیری چھاتی دے نال لگاں گی

میں ھور کج نئیں جانندی
پر اینا جاندی آں , کہ وقت جو وی کرے گا
اے جنم میرے نال ٹُُرے گا

اے جسم مُکدا اے
تے سب کج مُک جاندا اے

پر چیتیاں دے دھاگے
کائناتی کناں دے ھوندے
میں انہاں کناں نُوں چنڑاں گی
تاگیاں نُوں ولاں گی۔

تے تینوں میں فیر ملاں گی
۔...
امرتا ساحر اور امروز کی محبت اک لازوال داستاں  ! اپنی جگہوں پہ مجبور تینوں کردار محبت کے افق پہ ہمیشہ چمکتے رہے گے ان کے لئے کچھ لکھے میرے ذاتی آلفاظ  !! 
..
ہونٹوں پہ پیڑی جمائے  !! 
بولتی آنکھیں 
خاموش لب  
دل میں گہرا جوگ لئے 
یار کا سنجوگ لئے 
ادب کا اونچا نام  ! 
امرتا  ! 
ائے امرتا  ؟ 
کیسے تیرا درد میں بانٹوں  ؟ 
تو کیوں ظلم کما بیٹھی  ! 
اک آوارہ بادل سے 
دل کو کاہے  لگا بیٹھی  ! 
تیرا ساحر ہرجائی نکلا  ! 
جو صرف خواب دیے سکا 
خوابوں کی تعبیر دینے سے
 انکاری ہو گیا  ! 
تجھے رستہ دے کر 
خود بادل کی سواری ہو گیا!  
تو خود لفظوں کی جادوگرنی تھی 
تو کاہے  محبت کر بیٹھی   ؟ 
اتنی بھی کیا وحشت ہوئی  ؟ 
کہ اک شاعر سے 
تجھے محبت ہوئی  ! 
تیری محبت کا تو مقام کچھ اور تھا  ! 
تیری کہانی کوئی اور تھا  ! 
جو بے رنگ زندگی لئے 
اپنی ہر تصویر میں 
تیرے نام کے رنگ بھرتا تھا  ! 
جس کی تصویروں میں درد تھا 
اک سوز تھا  ! 
تیری محبت کا وارث
 امروز تھا
آہ بے چارہ امروز  ! 
تاریخ کا مظلوم کردار  !  
جس نے فقط امرتا کو چاہا 
امرتا سے کچھ نا چاہا  ! 
ساحر کی ادھ بجھی سگریٹ 
سنبھالنے والی امرتا  ! 
تو امروز کی محبت کاہے نہ  سنبھال سکی  ؟ 
سمجھ نہیں پاتا  ؟ 
امرتا  ! تجھے ظالم کہوں یا 
مظلوم لکھوں  ؟ 
تو ساحر کی محبت میں مجبور
 کوئی بیچارہ 
تیرے ہجر و فراق میں چُور  !
آہ ادھوری داستاں  !! 
کتنی مشابہت ہے ؟ 
میری زندگی کی اس کہانی سے  ؟ 
امروز کی میری جوانی سے  ! 
تو میری کہانی کی امرتا ہے ! 
اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ اور ہے 
میں امروز ہوں تیرا 
مگر تیرا ساحر کوئی اور ہے  ! 
امرتا جاتے جاتے 
اک آس تو دے گئی امروز کو
میں تینوں فیر ملاں گی  ! 
تو اتنی کٹھور  !  
نا تو محبت دی سکی  ! 
اور نا کوئی آس  ! 
اب کہنے کو کچھ نہیں
میرے پاس 
سوائے اس کے تو 
امرتا ہے میری کہانی میں  ! 
میں امروز ہوں   !
جو خراب ہوا بھری جوانی میں  !
...
اسود  ؟ 😪

No comments:

Post a Comment