Monday, May 11, 2020

مولانا مودودی کو سزائے موت

11 مئی 1953: قادیانیوں کے خلاف مسئلہ قادیانیت کتاب لکھنے پر مولانا مودودی (رح) کو فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تھی... 

سینٹرل جیل لاہور کا ایک حصہ دیوانی گھر کہلاتا تھا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کے دیگر ساتھیوں کو یہیں پابند سلاسل کیا گیا تھا۔ اسی دیوانی گھر کے صحن میں 11مئی 1953ء کو سید مودودی نماز مغرب کی امامت کر رہے تھے۔ اُن کے مقتدیوں میں اُن کے قریب ترین ساتھی میاں طفیل محمد اور مولانا امین احسن اصلاحی بھی شامل تھے۔ نمازیوں کو محسوس ہوا کہ نماز کے دوران قریب ہی قدموں کی چاپ سنائی دی لیکن کوئی نماز میں شامل نہیں ہوا۔

نمازیوں نے نماز مکمل کی تو انہوں نے دو تین فوجی افسران، سپرنٹنڈنٹ جیل اور اس کے عملے کے افراد کو اپنا منتظر پایا۔ نمازی اکٹھے اُن کے پاس پہنچے۔ رسمی طور پر سلام اور مصافحے ہوئے۔ اس کے بعد ماحول پر ایک مہیب سی خاموشی طاری ہوگئی۔

بالآخر ایک فوجی افسر نے مہر سکوت توڑ کر پوچھا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کون ہیں۔ سید مودودی نے نہایت سکون سے فرمایا۔ فرمائیے! میں ہوں ۔اس فوجی افسر نے فوجی عدالت کا وہ فیصلہ سنایا۔ اس نے کہا کہ اخبار تسنیم میں بیانات شائع کرانے کے جرم میں آپ کو 7سال قید بامشفت اور قادیانی مسئلہ لکھنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔

سید مودودی نے سزا سن کر پورے اطمینان سے صرف اتنا کہا۔ ’’بہت اچھا‘‘… اسی افسر نے ایک کاغذ جس پر سزائے موت لکھی تھی، سید مودودی کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا ’’مولانا آپ چاہیں تو سزائے موت کے خلاف ایک ہفتے کے اندر رحم کی اپیل کر سکتے ہیں۔‘‘
مولانا نے نہایت باوقار انداز میں جواب دیا:
’’مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی ہے۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسماں پر ہوتے ہیں، اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی، اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی‘‘۔

جیل کے دستور کے مطابق اب مولانا مودودی کو پھانسی کی کوٹھڑی میں جانا تھا۔ مولانا مودودی نے بڑے اہتمام کے ساتھ چپل کے بجائے اپنا جوتا اور کپڑے کی ٹوپی کے بجائے اپنی قراقلی پہنی، سب سے گلے ملے شاداں فرحاں پھانسی کی کوٹھڑی کی طرف روانہ ہو گئے۔

فوجی عدالت کی اس ظالمانہ سزا کے خلاف ملک کے اندر اور ملک سے باہر اور سارے عالم اسلام کے حکمرانوں نے  اتنا شدید احتجاج کیا کہ حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور سزائے موت کا فیصلہ واپس لینا پڑا

No comments:

Post a Comment