Wednesday, May 13, 2020

اسلم ملک کا قلم اور حسرت موھانی

* چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
* ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
* الہیٰ ترک الفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں

خود کو صوفی مومن، اشتراکی مسلم بتانے والے  مولانا حسرت موہانی کی آج 69 ویں برسی  ہے۔  ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ ، جس پر ہندوستان کی جنگِ آزادی لڑی گئی، ان کا ہی دیا ہوا ہے۔
سید فضل الحسن حسرت، قصبہ موہان ضلع اناؤ میں 4 اکتوبر 1878ء  کو پیدا ہوئے۔  والد کا نام سید اظہر حسین تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ 1903ء میں علی گڑھ سے بی۔ اے کیا۔ شروع  ہی سے شاعری کا ذوق تھا۔ کلام تسنیم لکھنوی کو دکھاتے رہے۔ 1903ءمیں علی گڑھ سے ایک رسالہ ” اردوئے معلیٰ“ جاری کیا۔  کتابوں کی فروخت میں سرگرم ہوئے تو  علامہ شبلی نے ایک مرتبہ کہا ۔” تم آدمی ہو یا جن، پہلے شاعر تھے پھر سیاست دان بنے اور اب بنیے ہو گئے ہو۔“ 
 1907میں انگریز حکومت کے خلاف ایک مضمون شائع کرنے پر حسرت جیل بھیج دیے گئے۔ ان کے بعد 1947 ءتک کئی بار قید اور رہا ہوئے۔ اس دوران ان کی مالی حالت تباہ ہو گئی۔ رسالہ بھی بند ہو گیا۔ مگران تمام مصائب کو انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور مشق سخن کو بھی جاری رکھا۔ چکی کی مشقت والا شعر انہی دنوں کا ہے۔13 مئی 1951 کو وفات پائی۔ آپ کو ‘رئیس المتغزلین‘بھی کہا جاتا ہے۔ 
 مولانا حسرت موہانی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ حسرت موہانی نے   13حج کئے ۔ پہلا حج 1933میں کیا اور آخری حج 1950میں ادا کیا ۔ 1938میں حج کے بعد  ایران، عراق اور مصر بھی گئے، کہتے تھے  ۔۔۔

درویشی و انقلاب مسلک ہے مرا
صوفی مومن ہوں اشتراکی مسلم  

  بھارت میں  کسی نے مولانا حسرت موہانی سے  پوچھا کہ آپ پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے؟
 ٹھنڈی سانس لیکر بولے "دونوں جگہ جذباتی جنونیت کا دور دورہ ہے اور اپنی تو ھر دو جگہ جان خطرے میں رہے گی. یہاں رہے توجانے کب کوئی ھندو انتہا پسند "مسلمان" کہہ کر مارڈالے.
پاکستان میں یہی کچھہ کسی جوشیلے مسلمان کے ہاتھوں ہو سکتا ہے. لیکن وہ مجھہ گستاخ" یا "کافر" کہہ کر مارےگا.میں سمجھتا ھوں کہ بھارت میں رہ کر "مسلمان" کی موت مرنا بہترھے پاکستان میں رہ کر " کافر"کی موت مرنے سے ‘‘

 حسرت موہانی کے کچھہ منتخب اشعار

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی 
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی

حقیقت کھل گئی حسرت ترے ترک محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

بلاتا لاکھہ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الہیٰ ترک الفت میں وہ کیونکر یاد آتے ہیں

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

تجھہ سے کچھہ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے

سہل کہتا ہوں ممتنع حسرت
نغز گوئی مرا شعار نہیں

شعر دراصل ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں

آرزو تیری برقرار رہے
دل کا کیا ہے رہا رہا نہ رہا

ایسے بگڑے کہ پھر جفا بھی نہ کی
دشمنی کا بھی حق ادا نہ ہوا

بام پر آنے لگے وہ سامنا ہونے لگا
اب تو اظہار محبت برملا ہونے لگا

چھیڑ ناحق نہ اے نسیم بہار
سیر گل کا یہاں کسے ہے دماغ

چھپ نہیں سکتی چھپانے سے محبت کی نظر
پڑ ہی جاتی ہے رخِ  یار پہ حسرت کی نظر

دل کو خیال یار نے مخمور کر دیا
ساغر کو رنگ بادہ نے پر نور کر دیا

غربت کی صبح میں بھی نہیں ہے وہ روشنی
جو روشنی کہ شام سواد وطن میں تھا

گزرے بہت استاد مگر رنگ اثر میں
بے مثل ہے حسرتؔ سخن میرؔ ابھی تک

   ہم کیا کریں اگر نہ تری آرزو کریں
دنیا میں اور بھی کوئی تیرے سوا ہے کیا

حسرتؔ بہت ہے مرتبۂ عاشقی بلند
تجھہ کو تو مفت لوگوں نے مشہور کر دیا

حسرتؔ کی بھی قبول ہو متھرا میں حاضری
سنتے ہیں عاشقوں پہ تمہارا کرم ہے آج

اقرار ہے کہ دل سے تمہیں چاہتے ہیں ہم
کچھہ اس گناہ کی بھی سزا ہے تمہارے پاس

کبھی کی تھی جو اب وفا کیجئے گا
مجھے پوچھہ کر آپ کیا کیجئے گا

کہاں ہم کہاں وصل جاناں کی حسرتؔ
بہت ہے انہیں اک نظر دیکھہ لینا

کٹ گئی احتیاط عشق میں عمر
ہم سے اظہار مدعا نہ ہوا

مانوس ہو چلا تھا تسلی سے حال دل
پھر تو نے یاد آ کے بدستور کر دیا

پیغام حیات جاوداں تھا
ہر نغمۂ کرشن بانسری کا

رعنائی  خیال  کو  ٹھہرا  دیا   گناہ
واعظ بھی کس قدر ہے مذاق سخن سے دور

سبھی کچھہ ہو چکا ان کا ہمارا کیا رہا حسرت
نہ دیں اپنا نہ دل اپنا نہ جاں اپنی نہ تن اپنا

شام ہو یا کہ سحر یاد انہیں کی رکھنی
دن ہو یا  رات ہمیں ذکر  انہیں  کا  کرنا

 شکوۂ  غم  ترے  حضور کیا
ہم نے بے شک بڑا قصور کیا

تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھہ کو کیا مجال
دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کر دیا

ان کو یاں وعدے پہ آ لینے دے اے ابر بہار
جس قدر چاہنا  پھر  بعد  میں  برسا  کرنا

اس نا خدا کے ظلم و ستم ہائے کیا کروں
کشتی مری ڈبوئی ہے ساحل کے آس پاس

بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بے تابیاں
ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا

ہجر میں پاس میر ے اور تو کیا رکھا ہے
اک تیرے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے

حسن بے پروا کو خو د بین و خود آرا کر دیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا

آئینے میں وہ دیکھہ رہے تھے بہار حسن
آیا میرا خیال تو شرما کے رہ گئے

دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا
شیوہ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا

حسرت بہت بلند ہے مرتبہ عشق
تجھ کو تو مفت لوگوں نے بدنام کر دیا

اک مرقع ہے حسن و شوخ ترا
کشمکش ہائے نوجوانی  کا

بُھلاتا  لاکھہ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترک الفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں

تو ڑ کر عہد و کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے

بزم اغیار میں ہر چند وہ بیگانہ رہے
ہاتھہ آہستہ مرا پھر بھی دبا کر چھوڑا

ہو کے نادم وہ بیٹھے ہیں خاموش
صلح میں شان ہے لڑائی کی

ٹوکا جو بزم غیر میں آتے ہوئے انہیں
کہتے بنا نہ کچھہ وہ قسم کھا کے رہ گئے

لایا ہے دل پہ کتنی خرابی
اے یار تیرا حسن شرابی
پیراہن اس کا سادہ و رنگین
با عکس مئے سے شیشہ گلابی
پھرتی ہے اب تک دل کی نظر میں
کیفیت اس کی وہ نیم خوابی

بار بار اٹھنا اسی جانب نگاہ شوق کا
اور تیر ا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے

سہل کہتا ہوں ممتنع حسرت
نغز گوئی مرا شعار نہیں

شعردراصل ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اُتر جائیں

رکھتے ہیں عاشقان حسن سخن
لکھنوی سے نہ دہلوی سے غرض

اس شوخ کورسوا نہ کیا ہے نہ کریں گے
ہم نے کبھی ایسا نہ کیا ہے نہ کریں گے

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

غالب و مصحفی و میرو نسیم و مومن
طبع حسرت نے اٹھایا ہر استاد سے فیض

طرز مومن پہ مرحبا حسرت
تیری رنگین نگاریاں نہ گئیں

اردو میں کہاں ہے اور حسرت
یہ  طرز  نظیری  و  فغانی !

سر کہیں، بال کہیں، ہاتھہ کہیں پاؤں کہیں
ان کا سونا بھی ہے کس شان کا سونا دیکھو

برق کو ابرکے دامن میں چھپا دیکھا ہے
ہم اس شوخ کو مجبور ِ حیا دیکھا ہے

یادبھی دل کو نہیں صبر و سکوں کی صورت
جب سے اس ساعد سمیں کو کھلا دیکھا ہے

تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھہ کو کیا مجال
دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کر دیا

بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بے تابیاں
ہم یہ سمجھے تھے اب دل کو شکیبا کر دیا

اک مرقع ہے حسن شوخ ترا
کشمکش ہائے نوجوانی کا

کٹ گیا قید میں ماہِ رمضاں بھی حسرت
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا

ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی
واللہ کہ ہم خدمت انگریز نہ کرتے

No comments:

Post a Comment