Monday, May 11, 2020

ترکی ڈرامے کی دھوم

اَرتغل ڈرامہ،حقائق اور نتائج
تحریر: محمد داؤد خان، پشاور

تُرکی نے خلافتِ عُثمانیہ کی تاریخ  پر مبنی ٹی۔وی ڈراموں کا آغاذ کردیا ہے۔ جس میں پہلا مرحلہ اَرتغل کے نام سے پایہء تکمیل تک پہنچ پایا ہے۔ عُثمان کے نام سے دوسرے سیزن کا مرحلہ ابھی جاری ہے۔ اِسلامی دنیا میں یہ کم عرصے میں بہت مقبول ہوگیا ہے۔ یہ یقیناً اداکاری کے لحاظ سے بہت عُمدہ اور ٹائم پاس کیلئے بھی بہت اچھّا ہے۔ اِس ڈرامہ سیریل سے تاریخی پس منظر  کی روشنی میں عالم اسلام میں ایک نیا جہادی جذبہ ، خلافت کی چاہت اور ایک لیڈر کی تمنّا پیدا کی جارہی ہے۔ اِس بات سے قطعاً اِنکار نہیں کہ خلافتِ عُثمانیہ کا اِسلام کے دورِعروج میں ایک اعلیٰ کردار اور  مقام رہا ہے، لیکن  عصر حاضر کا تقاضا اور چند اہم اَمُور کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہیں۔
ہر محرکہ کے  پیچھے ایک سبب، ایک  نظریہ یا ایک سوچ کارفرما ہوتی ہے جس کے سبب اس عمل کا  اظہار ہوتا ہے۔ ایک شخص کو اگر ایک بندوق تھمادی جائے اور اُسے اس کے استعمال کا نظریہ اور شَعُور نہ سکھایا جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اُس سے کسی کا خون کر دے یا یہ بھی مُمکن ہے کہ وہ اُس بندوق سے اپنا دفاع کرلے۔ اب بندوق کا صحیح اور درست اِستعمال  شَعُور ،تربیت اور نظریے پر مُنحصر ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے تو ہمارا سیاسی کلچر، سماجی و سیاسی نظام، نظامِ تعلیم اور اجتماعی ماحول نِت نئے ڈراموں، حوادث، واقعات، نعروں اور اُمیدوں کی شکل میں ہمیں بندوق تو تھما جاتے ہیں لیکن اُس کے درست اِستعمال کا نظریہ اور شَعُور ہرگز نہیں دیتے۔ اِس بےشَعُوری کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آئے دن ہم تبدیلی کے چکّر میں کسی نئے نعرے کے پیچھے لنگوٹی کَس لیتے ہیں۔ اِسلام کا نام سُنتے ہی امریکن میڈ جہاد میں کھو جاتے ہیں۔ قوم پرستی کے نعرے پر تو مَر مِٹنے کے لئے تیار ہوتے ہیں، اِس بے شَعُوری کی وجہ سے ہم کسی بھی چیز کا درست زاویہء نظر سے تجزیہ نہیں کرسکتے۔ القِصّہ یہ کہ جب قومیں بے شَعُوری میں ہوتی ہیں تو اُنہیں کسی بھی نعرے یا سوچ کے پیچھے لگایا جائے تو وہ لگ جاتی ہیں۔ اِس لئے ارتغل ڈرامے  سے ہمارے نوجوان کیا نتیجہ اَخذ کرتے ہیں وہ ہمارے نظام نے اُن پر چھوڑا  ہوا ہے۔ جہادی ذہن بنتا ہے۔ ہیروازم کا شکار بنتے ہیں۔ خلافت  کے تمنا میں رہتے ہیں یا وغیرہ وغیرہ
قرآن و حدیث کی روشنی میں فقہ کا اُصول ہے کہ جب  تک سسٹم موجود نہ ہو تو قَتّال نہیں کیا جاسکتا۔ گویا جہاد بالسیف کیلئے لازمی شرائط میں سے حقیقی اسلامک نظام کا قیام، آرمی اور ایک لیڈر  ہیں۔ جب تک اِسلامی نظام نہ ہو تو اِسلام کے عادلانہ سسٹم کی تشکیل کیلئے عدمِ تشدّد پر مَبنی ایک سٹیٹ بنانے کی جدّوجُہد کی جاتی ہے جو جہاد کا پہلا سٹیج ہے۔ جب انقلاب برپا کرکے ایک سٹیٹ کی بُنیاد رکھی جاتی ہے تو پھر  بین الاقوامی سطح پر ظُلم کے نظاموں  کو روکنے کیلئے قَتّال کیا جاتا ہے۔ لیکن آج زوال اور مغلُوبیت کے  دور میں ارتغل ڈرامے سے  ایک نئے انداز میں تشدّد پسندانہ ذہن تیار کیا جارہا ہے جو  ماضی کی طرح سامراج کے قَتّال میں اِستعمال ہوگا۔خلافتِ عُثمانیہ نے اگر قَتّال کیا ہے تو وہ عروج کا دور ہے جس میں وہ باقاعدہ طور پر  سَلجُوق سلطنت کے ماتحت قَتّال کررہے تھے اور یہ دور خلافتِ عبّاسیہ کا دور ہے۔ گویا اُس وقت قَتّال عین فرض تھا لیکن آج تو قَتّال سے پہلے عدمِ تشدّد پر مَبنی جدوجہد سے ایک اسلامی ریاست بنانا ہوگی جس کا معاشی، سیاسی، سماجی اور معاشرتی نظام دینِ اِسلام کے اُصولوں پر مبنی ہو۔ یہ نہ ہو کہ نام نہاد اِسلامی سٹیٹ جو نام سے تو اِسلامی لیکن  سرمایہ داری نظام رکھتا ہو، سے قَتّال کا جواز پیش کیا جائے۔
دُنیا مُختلف اَدوار سے گُزری ہے۔ آج جس دور میں ہم ہیں یہ جدید قومی جمہوری دور کہلاتا  ہے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ نے 1920 کے بعد خلافت کے تصوّر کو اِس انداز میں پیش کیا کہ اب خلافت والی طرزِحکومت نہیں چل سکتی اِس لئے نئی طرزِحُکمرانی کو اپنا کر عدمِ تشدّد پر مَبنی قومی جمہوری حکومت قائم کرنے کی جدّوجُہد کی جائے گی۔ اور ہر قوم اپنے جغرافیے کے اندر تبدیلی برپا کرکے ایک جمہوری سسٹم کو قائم کرینگے۔ اِس کی بین الاقوامی شکل پر مولانا عبیداللہ سندھی ؒ خُطبات و مقالات میں بات کرتے ہیں کہ آج اگر ہم دینِ اِسلام کے انٹرنیشنلزم کو قائم کرنا چاہتے ہیں تو اُس کیلئے اِنقلابی قُوّتوں کی ایک فیڈریشن بنانی ہوگی جو سامراجیت اور سرمایہ داریت کے خلاف ہو۔ اُس کیلئے وہ "ایشیاٹِک فیڈریشن" کا تصوّر دیتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اُس دور کی تبدیلی کا نتیجہ تھا کہ کمال اَتاتُرک قومی نظام کو قائم کرنے پر توجّہ دے کر خلافت کا خاتمہ کرتے ہیں۔ اِس پر مُستزاد یہ کہ دُنیا آگے جارہی ہے اور آگے کی سوچ رہی ہے لیکن ہم پیچھے چلنے کی پلاننگ کررہے  ہیں۔ دُنیا قومی جمہوری دور میں ہے۔فیڈریشن بنتے جارہے ہیں اور ہم خلافت کا رٹ لگا کر سامراجی جہادوں کے نذر ہورہے ہیں۔ اِس ڈرامے کے نتیجے میں وہ خلافت والا ذہن دوبارہ بنایا جارہا ہے جو کہ خیالوں کی دُنیا تک تو ٹھیک ہے لیکن حقیقت کی دنیا میں  اِس مفروضے کی کوئی جگہ نہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب کسی قوم کے ساتھ کوئی شَعُور، نظریہ اور تبدیلی کا پروگرام  نہیں ہوتا تو وہ کسی ایسے ہیرو کی تلاش میں رہتے ہیں جو ایک جِن کی طرح وارد ہوکر اُن کو بامِ عروج کی طرف گامزن کردے۔ حالانکہ یہ خیالی دُنیا کا ایک فلسفہ ہے۔ حقیقت کی دُنیا تو یہ کہتی ہے کہ جب تک شَعُوری بُنیادوں پر قیادت سازی کے مرحلے سے گزر کر ایک نظریئے پر مُنظّم پارٹی نہیں بنائی جاتی اور قومی و بین الاقوامی انقلاب  برپا کرنے کا ایک مُکمّل پروگرام نہ ہو تو سسٹم کی تبدیلی ممکن ہے اور نہ ہی دین کا غَلبہ۔ دُوسری بات یہ ہے کہ جدّوجُہد کے بغیر ایک پتّھر بھی نہیں ہِلتا تبدیلی کیا خاک آسکتی ہے۔ اِس ڈرامے سے اِس ذہنیت پیدا ہونے کا بھی اندیشہ ہے کہ ہیرو   طیب اردگان اُٹھ کر خلیفہ بنے گا اور ہم  زوال سے نکل جائیں گے۔ نہ زوال کی وجوہات  کی خبر اور نہ عروج  تک جانے کا پلان، نہ جدّوجہد کی نیّت اور نہ شُعُور کی بیداری۔ بس وہی بات ہے کہ ہم بستر میں بیٹھے ہونگے اور ایک ہیرو آجائے گا اور  سب کچھ ٹھیک کردے گا۔

تھے تو آباء وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے مُنتَظَرِ فردا ہو

علمِ تاریخ بھی ایک فن ہے۔ ابنِ خلدون کہتے ہیں کہ"ایک تاریخ کا اِنفرادی نُقطہء نظر ہے دوسرا اجتماعی"۔ تاریخ کے ادوار بھی ہیں اور ہر دور کی حکمتِ عملی، طرزِحُکمرانی مُختلف ہوتی ہے۔ اِس ڈرامے میں عیاں بات یہ ہے کہ تاریخ کو اِنفرادی نُقطہء نظر سے پیش کیا جارہا ہے۔ سارا ڈرامہ شخصیات کے اِردگرد  گُھومتا ہے اور تاریخ سے اِس دور میں حکمتِ عملی اَخذ کرنے کی بجائے ہیروازم پر مبنی ذہنیت کے ساتھ ساتھ 1200 ء دور کی طرزِ حکمرانی، تقاضوں اور حکمتِ عملی کو اس دور میں قائم کرنے کا ذہن بنایا جارہا ہے۔ گویا کہ تاریخ کا مطالعہ اپنی جگہ پر لیکن اُس کے اُصول سے واقفیت بھی ضروری ہے تاکہ اِس دور کے مطابق اُس سے نتائج اَخذ کئے جاسکیں۔ لیکن اگر تاریخ کا درست نُقطہء نظر اور نظریہ نہ دینے کے بجائے اِس طرح پیش کیا جائے گا تو لازمی نتیجہ ہے کہ ہم تو ہر نئے مداری کی خُوب آؤبَھگَت کرتے ہیں اور مُستقبل کے نتائج اور شَعُوری جانچ پَرَکھ کی بجائے لائن لگالیتے ہیں ۔ہر مرتبہ ہر سُوراخ سے ڈسے جارہے ہیں۔ اِس بار بھی ڈس کھالینگے۔
اِس لئے ایک گزارش ہے کہ ڈرامہ ضرور دیکھیے لیکن ساتھ میں بندوق چلانے کا درست نظریہ بھی حاصل کریں۔ امام انقلاب مولانا عبید اللہ  سندھی ؒ  کی کتاب "شَعُور و آگہی" میں تاریخ کا درست نُقطہء نظر سے مطالعہ اور تاریخ کو بطور ایک تسلسل کے مطالعہ کریں۔ اب سامراج کی ضرورت ہے کہ اِس دور کے تقاضوں کے مطابق حقیقی دینی جدوجہد کو کمزور کرکے خلافت، جہاد اور غزوہ ہند جیسے تصوّرات میں مسلمان نوجوانوں کو پھنسا کر اُن کی صلاحیتوں اور جذبوں سے کھلواڑ کریں۔ اس لئے دین کا غلبہ، سامراجیت کی شکست، بین الاقوامی انقلاب ،قومی انقلاب  اور انقلاب کیلئے قیادت سازی اور جدّوجُہد کا حقیقی نُقطہء نظر سمجھ لینا  ہوگا۔ شَعُوری آبیاری کو اپنا مَطمعِ نظر بنانا ہوگا۔ اِس دور کے نقاضے کو سامنے رکھ کر پہلے قومی سرمایہ دارانہ نظام   کا قلع قمع  کرنے کی جدّوجُہد کرنا ہوگی اور پھر بین الاقوامی سامراج کا بستر گول کرنے کی درست حکمِ عملی اختیار کرکے معاشی، سیاسی اور سماجی میدانوں میں ایک عالمگیر پروگرام پر کام کرنا  ہوگا تاکہ حقیقی معنوں میں خلافتِ عُثمانیہ کی روح کو تازہ کیا جاسکے۔

No comments:

Post a Comment