Saturday, May 30, 2020
Race Riots spread all America after Minnesota Death ! Black Life matters ! Cops suspended !Read the story not revealed !Floyd real footage
Friday, May 29, 2020
2 killing 2 Rape The Indian Forces will pay the Price The rage is mounting
The Horrible Incident happened in Shopian Two women's Asia and Nilofar Jan Left there Homes.It was a Sunny Late spring.They went to Pluck Apples from there Farms.
Asia was a 17 years old college student while her sister in law was 22 years old married women They both went to there family Orchid Bagh to pluck Apples
During there way they Passed a Stream where on the other side there was a Police-Station .The Police forcibly picked both girls and then Gang-raped and in order to cover there heinous crimes they murdered both women's.
Asia dead body was found with her skull broken nose broken and both were brutally beaten till they were dead
Police tried to cover there crimes but People protested much but the same Indian Government gave shelters to the criminals
India is keeping a Huge force of 500,000 soldiers to curb the separatist but will this stop the spirit of Kashmisi for an Independent Kashmir.
The brutality has lowered the Kashmir protest in the Last two decades but the stories coming out that Kashmiri still struggling.
Will the world now listen to there sorrows or The trade with India is the first priority
We,have seen the silence of Amnesty and especially the American President lies of mediating between India-Pakistan .India is trying its best to crush the spirit of Liberation
The world now must understand Kashmiri will never bow down no matter 500,000 soldiers or one million one day they will have to pay the price.
The Horrible Destruction of Omayyad Caliph Hazrat Umar ibn Abdul Aziz written By Ali K.Chishti
How Bashar forces and allies or an unknown group in Syria disrespected the grave of Caliph Umar Bin Abdul Aziz RAH. His grave has been exhumed and his body had been taken by this group. Imagine the hate? Commonly known as Umar II, was the eighth Umayyad caliph, ruling from 22 September 717 until his death in 720. Umar made various significant contributions and reforms to the society, and he has been described as "the most pious and devout" of the Umayyad rulers and was often called the first Mujaddid and the fifth righteous Caliph of Islam.He was also a cousin of the former caliph, being the son of Abd al-Malik's younger brother, Abd al-Aziz. He was also a matrilineal great-grandson of the second caliph, Umar ibn Al-Khattab.
Surrounded with great scholars, he is credited with having ordered the first official collection of Hadiths and encouraged education to everyone. He also sent out emissaries to China and Tibet, inviting their rulers to accept Islam. At the same time, he remained tolerant with the his non-Muslim citizens. According to Nazeer Ahmed, it was during the time of Umar ibn Abd al-Aziz that the Islamic faith took roots and was accepted by huge segments of the population of Persia and Egypt.
He made other reforms:[24]
State officials were excluded from entering into any business.
Unpaid labor was made illegal.
Pasture lands and game reserves, which were reserved for the family of the dignitaries, were evenly distributed among the poor for the purpose of cultivation.
He urged all of the officials to listen the complaints of the people; he would also announce at any public occasion that, if anyone witnessed a public official mistreating others, he should report him to to the leader and would be given a reward ranging from 100 to 300 dirhams.
Umar Bin Abdul Aziz also is credited to finish jazya on newly converts non Arabs Muslims much to the opposition of Ummayads. He said I'm not a tax collector but a Caliph. He died of aged 37 and buried in a plot bought by him. He was succeeded by Yazid II.
The Destruction of Tomb of Hazrat Umar Ibn Abdul Aziz Bodies Exhumed Huge Protest in Sunni circles
Militants related to Syrian Bashar ul Assad have destroyed and desecrated the Grave of 6th Umayyad Caliph Hazrat umar Ibn Abdul Aziz in Idlib Yesterday.
Wednesday, May 27, 2020
Tuesday, May 26, 2020
جاپان کا طیارہ جب گرا تحریر سید سجاد حسین
Monday, May 25, 2020
نیاز فتح پوری تحریر اسلم ملک
برصغیر میں عقلیت پسندی اور روشن خیالی کے فروغ میں نیاز و نگار کا بڑا کردار ہے۔
دانشور، شاعر، ماہر لسانیات، انشا پرداز، افسانہ نگار، مترجم، صحافی اور نقاد نیاز فتح پوری 28 دسمبر 1884 کو فتح پور ہسوہ (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاسل کی۔9 سال کی عمر میں مدرسہ اسلامیہ فتح پور میں داخل ہوئے جہاں مولانا حسرت موہانی ان کے ہم جماعت تھے۔ مدرسہ عالیہ رامپور اور دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے بھی تعلیم حاصل کی۔1899 میں میٹرک کیا۔ والد امیر خاں پولیس میں تھے ،ان کے ساتھ کئی مقامات پر رہنے کا موقع ملا۔1900 میں خود بھی سب انسپکٹر پولیس چنے گئے۔مرادآباد میں ایک سال تربیت لی اور تھانہ ہنڈیا ضلع اللہ آباد میں تعینات ہوئے۔ یہ کام طبیعت کے خلاف تھا اسلئے دو سال بعد استعفیٰ دیدیا۔
نیاز نےصحافت کا آغاز مولانا ظفر علی خان کے ’’زمیندار ‘‘سے کیا۔ پھرتوحید،رعیت وغیرہ سے منسلک رہے۔ فروری 1922ء میں آگرہ سے اردو کا معروف ادبی و فکری رسالہ"نگار" جاری کیا۔ اس کا نام انہوں نے ترکی زبان کی مشہور شاعرہ نگار بنت عثمان سے متاثر ہوکر رکھا ۔ نگار دو ملکوں کے چار شہروں آگرہ، لکھنئو، بھوپال اور کراچی سے نکلتا رہا۔
نیاز فتح پوری کی تحریروں بالخصوص باب الاستفسار اور باب الانتقاد نے اردو میں نئے خیالات اور مباحث کو جنم دیا ۔
البتہ نیاز پر یہ الزام لگتا رہا کہ وہ عالمانہ انگریزی تحریروں کے تراجم حوالے کے بغیر استعمال کرتے رہے گویا انہی کی تحقیق ہے.
نیاز فتح پوری کی علمی خدمات کے اعتراف میں 24 مئی1962ء کو بھارتی حکومت نے انہیں اپنے بڑے ادبی اعزاز "پدم بھوشن" سے نوازا لیکن 31 جولائی 1962ء کو وہ ہجرت کر کے کراچی آگئے۔
نگار کا شمارہ جولائی 1962 لکھنئو سے اور شمارہ اگست 1962 کراچی سے شائع ہوا۔ یہ باقاعدگی ان کے بعد ان کے شاگردوں ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور امراؤ طارق نے بھی جاری رکھی۔
پاکستان میں انہوں نے ترقی اردو بورڈ کی لغت پر نظر ثانی کی اور اخبار جنگ میں ’’رنگا رنگ‘‘ کے نام سے ہفتہ وار کالم بھی لکھتے رہے۔ حکومت پاکستان نے بھی نیاز کو "نشان سپاس" سے نوازا۔
نیاز فتح پوری کا سرطان کے مرض سے 24 مئی 1966ء کوانتقال ہوا۔
ان کی 35 کتابوں میں سے کچھہ یہ ہیں:
من و یزداں
مالہ و ما علیہ
مشکلات غالب
استفسارات
انتقادیات
ترغیبات جنسی
تاریخ الدولین
توقیت تاریخ اسلامی ہند
چند گھنٹے حکماء کی روح کے ساتھہ
جذبات بھاشا
نگارستان
جمالستان
نقاب اٹھہ جانے کے بعد
حُسن کی عیاریارں اور دوسرے افسانے
مختاراتِ نیاز
شہاب کی سرگذشت
عرضِ نغمہ::ٹیگور کی گیتا انجلی کا ترجمہ
شبنمستان کا قطرۂ گوہریں
صحابیات
محمد بن قاسم سے بابر تک
ایک شاعر کا انجام
چین بھارت حالیہ تنازعہ'پس پردہ مکمل منظرنامہ: ھارون پاشا کی وال سے
چین نے لداخ پر قبضہ کر لیا، انڈین اخبار بزنس اسٹینڈرڈ میں چھپنے والے ایک آرٹیکل کی رپورٹ، رپورٹ کے مطابق پیپلز لیبریشن آرمی چائنہ کے 5000 فوجی پانچ جگہوں سے لداخ میں گھس آئے: گیلون دریا کے ساتھ سے چار جگہوں سے اور پینگونگ ندی کے ساتھ ایک جگہ سے۔۔۔
یہ معمول کا فوجی تنازعہ نہیں ہے اور نہ ہی 2013 اور 2014 کی طرح متنازعہ علاقے پر چائنہ کا عارضی قبضہ ہے بلکہ اس دفعہ پیپلز لیبریشن آرمی ان علاقوں میں اپنے مضبوط دفاع کیلئے مورچے بنا رہی ہے اور بڑی گاڑیاں یہاں لے آئی ہے اور انکے دفاع کیلئے پیچھے ہیوی آرٹلری پہلے سے موجود ہے۔۔۔
یاد رھے کہ پیپلز لیبریشن آرمی کے سولجرز اپریل کے آخر میں گیلون وادی میں اتنا اچانک گھسے کہ انڈین آرمی ان کو آگے سے مقابلہ یا چیلنج تک نہ کر سکی. انڈین آرمی کی بار بار کوششوں کے باوجود پیپلز لیبریشن آرمی اب بھارتیوں کے ساتھ تنازعات پر بات چیت کیلیے فلیگ سٹاف میٹنگ بھی نہیں کر رہی۔۔۔
یہ تو تھی تازہ ترین صورتحال جس کا تذکرہ بھارتی اخبار میں ملا ھے۔ سوچنے کی بات ھے کہ آخر کیا وجہ ھے جو بھارت کو چینی افواج کے اندر گھس جانے کے باوجود سانپ سونگھ گیا ھے. کوئی میڈیا ردعمل نظر نہیں آ رہا کوئی پاکستان جیسی دھونس دھمکیاں چین کو نہیں دے رھے۔۔۔
آپ کو بتاتے ھیں اصل وجہ کہ انتہائی خفیہ رپورٹس تھیں کہ بھارت گلگت بلتستان پر حملہ کرنے کی پوری تیاری میں ھے۔ جس کا مقصد گلگت بلتستان پر قبضہ کر کے سی پیک روٹس کو کاٹ دے اور گلگت میں تعمیر ھو رہے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر بھی روکوا دے گا۔ کیونکہ اس کام کیلیے بھارت کی پشت پناہی امریکہ اسرائیل بھی کر رہے ھیں۔۔۔
پاکستان کی پیشگی مدد کرنے کی غرض سے اور سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے کو ناپاک بھارتی عزائم سے تحفظ دینے کیلیے چین نے باوجود اس کے کہ امریکہ کے ساتھ بھی کشیدگی اپنے عروج پر ھے پھر بھی بھارت کے اندر فوجیں گھسا دیں۔ اور سی پیک سمیت دیامیر بھاشا ڈیم اور پاکستان کی سالمیت کا دفاع کیا۔۔۔
بھارت کے پختہ ناپاک عزائم کو دیکھتے ھوئے چین نے بھی پختہ عزم کرتے ھوئے نہ ان علاقوں میں صرف فوجیں گھسا دیں (لداخ ریجن جہاں سے بھارت گلگت بلتستان پر حملہ کر سکتا تھا) بلکہ نئی پوزیشنوں پر چینی افواج بنکرز بھی بنا رہی ھیں جس کا واضع مطلب یہ ھے کہ چینی افواج اب پیچھے ہٹنے والی نہیں ھیں۔۔۔
یاد رھے لائن آف ایکچوئل کنٹرول لداخ ریجن بھارت کیلیے پاکستانی گلگت بلتستان پر حملہ کرنے کا مختصر ترین اور واحد راستہ تھا جس پر اب خوفناک ڈریگن آ بیٹھا ھے اور بزدل بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے ھیں۔ یہاں تک اطلاعات ھیں کہ چین نے بھارت کے 75 فوج بھی اسلحے سمیت اغواء کر لیے ھیں۔ کیا پتہ چینی فوج اب تک بھارتی فوجیوں کا سوپ بنا کر ہی بھی چکی ھو۔۔۔
دوسری طرف نیپال کے ساتھ بھی جو بھارتی تنازع شروع ھوا ھے۔ اس میں بھی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی سڑک کا معاملہ ھے جس میں چین نیپال کو بھرپور پشت ہنائی کر رہا ھے کہ بھارت کی بدمعاشی کو خاک میں ملاؤ ھم تمھارے ساتھ ھیں۔ یعنی چین نے دونوں ممالک نیپال اور پاکستان کے ساتھ اپنے اھم سٹریٹجک اور معاشی منصوبوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلیے بھارت کی ٹھکائی کا پورا پورا پلان بنا لیا ھے۔۔۔
چین بھارت کی یہ جنگ اب صرف اسی صورت میں ٹل سکتی ھے اگر بھارت پاکستان کے خلاف ناپاک عزائم سے باز آ جائے۔ جو کہ یہ کام بھی مشکل لگتا ھے کیونکہ بھارت کو امریکہ اسرائیل پیچھے بیٹھ کر پاکستان پر حملہ کرنے کیلیے شدید دباؤ ڈال رہے ھیں۔ ساتھ بھارت خود بھی کئی سالوں سے گلگت بلتستان پر اپنا دعویٰ کر رہا ھے۔ بالخصوص اب جو دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع ھے اس سے بھی بھارت بہت تکلیف میں ھے۔۔۔
ڈیم بن جانے کی صورت میں پاکستان میں بجلی کا بحران حل ھو گا. پانی کی کمی پوری ھو گی۔ زراعت و خوارک میں اضافہ ھو گا جب کہ بھارت کبھی بھی اس کے حق میں نہیں ھے۔ بھارت پچھلے تہتر سالوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر سے پاکستان میں بہنے والے پانچوں دریاؤں پر چھوٹے بڑے لگ بھگ 124 ڈیمز بنا کر تقریبا تمام پانی روک چکا ھے. جس کا مقصد ہی پاکستان کو بنجر بنانا، پاکستان کو بھوکا پیاسا مارنا ھے۔۔۔
جو لوگ ان پانچوں دریاؤن کے قریب رہرے ھیں انہیں اچھی طرح علم ھے کہ صرف دریائے سندھ کے علاوہ باقی تمام دریا بھارت کی جانب سے پاکستان کا پانی روک دیے جانے کی وجہ سے خشک ھو چکے ھیں. اب ڈیم بن جانے کی صورت میں بھارت کی یہ معاشی دھشتگردی کا منصوبہ کھڈے لائن لگ جانا ھے جو کہ بھارت کو کبھی منظور نہیں ھے۔۔۔
تو پیارے ھم وطنو پاکستان کے گلگت بلتستان پر حملہ جھاں سی پیک روٹ کاٹنے میں امریکہ و اسرائیل کا مفاد ھے۔ وھیں پہ ڈیم کی تعمیر روکنے میں خود بھارت کا پاکستان کے خلاف ناپاک منصوبے کا مفاد ھے۔ جبکہ بھارت کے ان تمام ناہاک عزائم کس خاک میں ملانا چین کے ان تمام منصوبوں کے دفاع کا مفاد شامل ھے۔ اب دیکھیے مفادات کے حصول اور مفادات کے تحفظ کی جنگ میں جیت کس کی ھوتی ھے۔ ھمارے دفاع میں آنے والے چین کے ساتھ ھم ہر طرح سے اور ہر سطح پر ساتھ کھڑے ہیں۔
Tahir kiani کی وال سے منقول
جرنل ایوب خان اور مسلم لیگ اسلم ملک کا قلم
1963 کے انہی دنوں میں فیلڈ مارشل ، مسلم لیگ کے ’’ دو آنے ‘‘ کے ممبر بنے اور پھر سات ہی ماہ میں اس عروسِ ہزار داماد کے سرتاج بن گئے۔
یاد رہے کہ پھر ضیأ الحق نے بھی مسلم لیگ بنوائی جو نواز شریف کو وراثت میں ملی اور پرویز مشرف نے بھی مسلم لیگ کے سر پر ہاتھ رکھا اور بعد میں اپنی الگ مسلم لیگ بھی بنالی۔
Sunday, May 24, 2020
الیگزینڈر دی گریٹ یا حظرت عمر فاروق رض اللہ عنہ کا دور حکومت
کیا جاوید غامدی کے نظریات درست ھیں عائشہ کا قلم
بلوچستان کی بیٹی سردار علی محمد کی وال
کیپٹن سجاد گل کا اعتماد علی قلی کی وال سے
چاند کی اشکال ڈاکٹر انور مقصود
بیویاں اور دھمکیاں کون کیسے دھمکاتی ھیں
اختر الایمان کون تھے کیسے تھے
عبدلستار ایدھی کیسے ایدھی ٹرسٹ بنایا طارق نسیم کی تحریر
رنڈی اور اس کی حقیقت سعادت حسن منٹو کا قلم
Saturday, May 23, 2020
بھٹو نے سلامتی کونسل میں پولینڈ کی پیش کردہ قرارداد کیوں پھاڑی؟۔محمد عامر جاوید مہتہ کا تجزیہ
پاکستان میں ماضی کے واقعات کے بارے میں جھوٹ اس صفائی سے بولا جاتا ہے کہ نئی نسل تو کیا ماضی میں حالات کا مشاہدہ کرنے والے لوگ بھی شک میں پڑ جاتے ہیں اور ماضی کی بحث میں الجھ جاتے ہیں۔ ہر سال سقوط پاکستان سے متعلق ایک ایسی ہی بحث کا لب لباب یہ ہے کہ اگر بھٹو پولینڈ کی تجویز کردہ قراداد نہ پھاڑتا تو بنگلہ دیش وجود میں نہ آتا۔ اس سلسلے میں ٹی وی چینلز پر بھٹو صاحب کو غصے میں کاغذ پھاڑتے اور اپنی نشست سے اٹھ کر سلامتی کونسل سے باہر نکلتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ اس قرارداد میں ایسا کیا تھا کہ بھٹو صاحب غصے پر قابو نہ رکھ سکے۔ یہ جاننے سے پہلے کچھ اور باتوں کا ذکر ضروری ہے۔
بھارتی فوج کئی ماہ تک بھارت میں قائم بنگلہ دیش کی نام نہاد جلاوطن حکومت کے نام پر مشرقی پاکستان میں مسلح کاروائیاں کرتی رہی اور بالآخر 22 نومبر 1971 کو عید کےدن غیر اعلانیہ طور پر سرحد عبور کرکے مشرقی پاکستان میں داخل ہوگئی۔ بھارتی فوج کی اس کاروائی سے زچ ہوکر 3 دسمبر کی شام پاکستانی فوج نے مغربی پاکستان کی طرف سے بھارت پر حملہ کردیا جس کی وجہ سے معاملہ سلامتی کونسل میں پہنچ گیا۔
پاکستانی مندوب آغا شاہی نے 4 دسمبر 1971 کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں اس بات پر زور دیا کہ مشرقی پاکستان جاری فوجی آپریشن پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا اقوام متحدہ کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ اسلئے اقوام متحدہ اپنے کردار کو بین الاقوامی سرحدوں پر جاری جنگ تک ہی محدود رکھے۔
روسی مندوب نے اس ساری صورتحال کا ذمہ دار پاکستانی فوج کو ٹھہرایا اور تجویز پیش کی کہ بھارت میں قائم بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کو بھی اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس روسی تجویز کو چین نے ویٹو کردیا۔جس کے نتیجے میں ڈیڈ لاک کی صورت سامنے آگئی۔ جسے ختم کرنے کے لئے چین اور امریکہ نے مشترکہ قرارداد پیش کی جس میں پاکستان اور بھارت کی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ دونوں ملک فوری طور پر جنگ بندی کریں اور اپنی اپنی افواج کو بین الاقوامی سرحدوں پر واپس بلائیں۔ اس قرارداد کو روس نے ویٹو کردیا۔
صورتحال لمحہ بہ لمحہ فوج کے قابو سے باہر ہوتی جارہی تھی ایسے میں فوج کو معاملات سنبھالنے کے لئے ہمیشہ کی طرح ایک سیاستدان کی یاد آئی اور بھٹو صاحب کو وزیر خارجہ نامزد کرکے بنا حلف اٹھوائے اقوام متحدہ بھیج دیا گیا۔
پولینڈ کے مندوب نے روس کی حمایت سے 15 دسمبر 1971 کو ایک اور جنگ بندی کی قرارداد پیش کی جس کے بنیادی نکات مندرجہ ذیل تھے۔
۔ شیخ مجیب کو رہا کیا جائے۔
۔ مشرقی پاکستان میں حکومت چنے ہوئے عوامی نمائندوں کے سپرد کی جائے۔ (یاد رہے کہ مغربی پاکستان میں کیا کیا جائے ، اس کا کوئی ذکر نہیں)
مشرقی محاذ پر فوری جنگ بندی کی جائے ۔ (مغربی محاذ کا کوئی ذکر نہیں)۔
مشرقی پاکستان میں نئی قائم ہونے والی حکومت کے تعاون سے پاکستانی شہریوں اور پاکستانی فوج کا مشرقی پاکستان سے انخلا عمل میں لایا جائے اور اسی طرح مستقل جنگ بندی کے لئے مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج کو سرحد پر واپس بھیجا جائے۔ (مغربی پاکستان کا پھر کوئی ذکر نہیں)۔
اس قرارداد کے منظور ہوجانے کی صورت میں پاکستان کو کیا نقصانات یا فوائد حاصل ہوتے۔
۔ فوری جنگ بندی کی وجہ سے ڈھاکہ بھارتی فوج کے قبضے میں نہ جاتا۔
۔ بھارت کو واضح فتح نصیب نہ ہوتی۔
۔ پاکستانی فوج ہتھیار ڈالنے اور جنگی قیدی بننے سے بچ جاتی اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی مشرقی پاکستان سے پاکستانی فوج کا محفوظ طریقے سے انخلاممکن ہوجاتا۔
- مشرقی پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے وجود میں آجاتا۔ کیونکہ مشرقی پاکستان سے نکلنے کے بعد مغربی پاکستان کی فوج کا مشرقی پاکستان پر کوئی اختیار نہ رہتا۔
اندرا گاندھی کو علم تھا کہ اس قرارداد کو روس کی پشت پناہی حاصل تھی اس لئے اس نے بغیر کسی لیت و لعل کے ان تجاویز کو قبول کرلیا۔
مگر بھٹو صاحب کے لئے اس قرارداد پر دستخط کرنا مشرقی پاکستان کی آزادی کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف تھا۔ چنانچہ انہوں انتہائی غصہ میں ایک لمبی تقریر کی اور کہا کہ "میں چوہا نہیں ہوں"۔ پھر تقریر کے لئے لکھے ہوئے اپنے نوٹس پھاڑے اور باہر نکل گئے۔
“Finally, I am not a rat. I have never ratted in my life. I have faced assassination attempts, I have faced imprisonments. I have always confronted crises. Today I am not ratting, but I am leaving your Security Council. I find it disgraceful to my person and to my country to remain here a moment longer than is necessary. I am not boycotting. Impose any decision, have a treaty worse than the Treaty of Versailles, legalise aggression, legalis
"میں تمہاری سلامتی کونسل سے جارہا ہوں۔ یہاں ایک لمحے کے لئے ٹھہرنا بھی میرے اور میرے ملک کے لئے باعث شرم ہے۔ میں بائیکاٹ نہیں کررہا۔ تم جو مرضی فیصلہ کرلو۔ کوئی Versailles (یہ معاہدہ 1919میں جرمنی کو سزا دینے کے لئے کیا گیا تھا) سے بھی بد تر معاہدہ کرلو۔ جارحیت کو قانونی قرار دے دو۔ جارحیت کو قانونی قرار دے دو۔۔۔ "۔
پاکستان ٹوٹ چکا تھا مگر یحیٰ خان پھر بھی اقتدار سے چمٹے رہنے کے چکر میں تھا۔ ایسے میں جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان طیارہ لے کر نیویارک گئے اور بھٹو صاحب کو واپس لانے کے بعد 20دسمبر کو زبردستی اقتدار یحیٰ خان سے بھٹو صاحب کو منتقل کروایا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت بھی فوج بھٹو صاحب کو ہتھیار ڈالنے اور فوج کو حاصل ہونے والی ذلت کا ذمہ دار سمجھتی تھی؟
اگر ایسا سمجھتی تھی تو پھر ان جرنیلوں نے اقتدار فوج کی ذلت کے ذمہ دار کے سپرد کیوں کیا؟۔ جبکہ بھٹو صاحب طاقت کے بل بوتے پر اقتدار حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
پڑھتا جا شرماتا جا😢😷🤔 اعجاز بٹ کی وال سے
1955ءمیں کوٹری بیراج کی تکمیل کےبعدگورنرجنرل غلام محمدنےآبپاشی سکیم شروع کی۔4 لاکھ مقامی افراد میں تقسیم کی بجائے یہ افراد زمین کے حقدار پائے:
1:جنرل ایوب خان۔۔500ایکڑ
2:کرنل ضیااللّہ۔۔500ایکڑ
3:کرنل نورالہی۔۔500ایکڑ
4:کرنل اخترحفیظ۔۔500ایکڑ
5:کیپٹن فیروزخان۔۔243ایکڑ
6:میجرعامر۔۔243ایکڑ
7:میجرایوب احمد۔۔500ایکڑ
8:صبح صادق۔۔400ایکڑ
صبح صادق چیف سیکرٹری بھی رھے۔
1962ءمیں دریائےسندھ پرکشمورکےقریب گدوبیراج کی تعمیرمکمل ہوئی۔
اس سےسیراب ہونےوالی زمینیں جن کاریٹ اسوقت5000-10000روپے
ایکڑ تھا۔عسکری حکام نےصرف500روپےایکڑکےحساب سےخریدا۔
گدوبیراج کی زمین اس طرح بٹی:
1:جنرل ایوب خان۔۔247ایکڑ
2:جنرل موسی خان۔۔250ایکڑ
3:جنرل امراؤ خان۔۔246ایکڑ
4:بریگیڈئر سید انور۔۔246ایکڑ
دیگر کئ افسران کو بھی نوازا گیا۔
ایوب خان کےعہدمیں ہی مختلف شخصیات کومختلف بیراجوں پرزمین الاٹ کی گئی۔انکی تفصیل یوں ہے:
1:ملک خدا بخش بچہ
وزیر زراعت۔۔158ایکڑ
2:خان غلام سرور خان،
وزیرمال۔۔240ایکڑ
3:جنرل حبیب اللّہ
وزیرداخلہ۔۔240ایکڑ
4:این-ایم-عقیلی
وزیرخزانہ۔۔249ایکڑ
5:بیگم عقیلی۔۔251ایکڑ
6:اخترحسین
گورنر مغربی پاکستان۔۔150ایکڑ
7:ایم-ایم-احمد مشیراقتصادیات۔۔150ایکڑ
8:سیدحسن
ڈپٹی چیرمین پلاننگ۔۔150ایکڑ
9:نوراللّہ ریلوے انجیئر۔۔150ایکڑ
10:این-اے-قریشی
چیرمین ریلوے بورڈ۔۔150ایکڑ
11:امیرمحمد خان
سیکرٹری صحت۔۔238ایکڑ
12:ایس-ایم-شریف سیکرٹری تعلیم۔۔239ایکڑ
جن جنرلوں کوزمین الاٹ ہوئی۔انکی تفصیل یوں ہے:
1:جنرل کے-ایم-شیخ۔۔150ایکڑ
2:میجر جنرل اکبرخان۔۔240ایکڑ
3:برئگیڈیر ایف-آر-کلو۔۔240ایکڑ
4:جنرل گل حسن خان۔۔150ایکڑ
گوھر ایوب کےسسرجنرل حبیب اللّہ کوہربیراج پروسیع قطعۂ اراضی الاٹ ہوا۔
جنرل حبیب اللّہ گندھاراکرپشن سکینڈل کےاہم کردارتھے۔
جنرل ایوب نےجن ججزکوزمین الاٹ کی گئ:
1:جسٹس ایس-اے-رحمان 150ایکڑ
2:جسٹس انعام اللّہ خان۔۔240ایکڑ
3:جسٹس محمد داؤد۔۔240ایکڑ
4:جسٹس فیض اللّہ خان۔۔240ایکڑ
5:جسٹس محمد منیر۔۔150ایکڑ
جسٹس منیرکواٹھارہ ہزاری بیراج پربھی زمین الاٹ کی گئی۔اسکےعلاوہ ان پرنوازشات رھیں۔
ایوب خان نےجن پولیس افسران میں زمینیں تقسیم کیں:
1:ملک عطامحمدخان ڈی-آئی-جی 150ایکڑ
2:نجف خان ڈی-آئی-جی۔۔240ایکڑ
3:اللّہ نوازترین۔۔240ایکڑ
نجف خان لیاقت علی قتل کیس کےکردارتھے۔قاتل سیداکبرکوگولی انہوں نےماری تھی۔
اللّہ نوازفاطمہ جناح قتل کیس کی تفتیش کرتےرھے۔
1982میں حکومت پاکستان نےکیٹل فارمنگ سکیم شروع کی۔اسکا مقصد چھوٹے کاشتکاروں کو بھیڑبکریاں پالنےکیلئےزمین الاٹ کرنی تھی۔مگراس سکیم میں گورنرسندھ جنرل صادق عباسی نےسندھ کےجنگلات کی قیمتی زمین240روپےایکڑکےحساب سےمفت بانٹی۔
اس عرصےمیں فوج نےکوٹری،سیھون،ٹھٹھہ،مکلی میں25لاکھ ایکڑزمین خریدی۔
1993میں حکومت نےبہاولپور میں 33866ایکڑزمین فوج کےحوالےکی۔
جون2015میں حکومت سندھ نےجنگلات کی9600ایکڑ قیمتی زمین فوج کےحوالےکی۔24جون2009کوریونیوبورڈ پنجاب کی رپورٹ کےمطابق 62% لیزکی زمین صرف 56 اعلی عسکری افسران میں بانٹی گئی۔ جبکہ انکاحصہ صرف10% تھا۔شایدیہ خبرکہیں شائع نہیں ہوئی۔
2003میں تحصیل صادق آباد کےعلاقےنوازآباد کی2500ایکڑ زمین فوج کےحوالےکی گئی۔یہ زمین مقامی مالکان کی مرضی کےبغیردی گئی۔جس پرسپریم کورٹ میں مقدمہ بھی ہوا۔
اسی طرح پاک نیوی نےکیماڑی ٹاؤن میں واقع مبارک گاؤں کی زمین پرٹریننگ کیمپ کےنام پرحاصل کی۔اس کاکیس چلتارہا۔اب یہ نیول کینٹ کاحصہ ہے۔
2003میں اوکاڑہ فارم کیس شروع ہوا۔
اوکاڑہ فارم کی16627ایکڑ زمین حکومت پنجاب کی ملکیت تھی۔یہ لیزکی جگہ تھی۔1947میں لیزختم ہوئی۔حکومت پنجاب نےاسےکاشتکاروں میں زرعی مقاصدسےتقسیم کیا۔ 2003میں اس پرفوج نےاپناحق ظاھرکیا۔
اسوقت کےڈی۔جیISPRشوکت سلطان کےبقول فوج اپنی ضروریات کیلئےجگہ لےسکتی ہے۔
2003میں سینیٹ میں رپورٹ پیش کی گئی۔جسکےمطابق فوج ملک27ہاؤسنگ سکیمزچلارہی ہے۔
اسی عرصےمیں16ایکڑکے 130پلاٹ افسران میں تقسیم کئےگئے۔
فوج کےپاس موجود زمین کی تفصیل:
لاھور۔۔12ہزارایکڑ
کراچی۔۔12ہزارایکڑ
اٹک۔۔3000ایکڑ
ٹیکسلا۔۔2500ایکڑ
پشاور۔۔4000ایکڑ
کوئٹہ۔۔2500ایکڑ
اسکی قیمت 300بلین روپےہے۔
2009میں قومی اسمبلی میں یہ انکشاف ہوا۔
بہاولپورمیں سرحدی علاقےکی زمین380روپےایکڑکےحساب سےجنرلزمیں تقسیم کی گئی۔جنرل سےلیکرکرنل صاحبان تک کل100افسران تھے۔
چندنام یہ ہیں:
پرویزمشرف،جنرل زبیر،جنرل ارشادحسین،جنرل ضرار،جنرل زوالفقارعلی،جنرل سلیم حیدر،جنرل خالدمقبول،ایڈمرل منصورالحق۔
مختلف اعدادوشمارکےمطابق فوج کےپاس ایک کروڑبیس لاکھ ایکڑزمین ہے۔جوملک کےکل رقبےکا12%ہے۔
سترلاکھ ایکڑکی قیمت700ارب روپےہے۔
ایک لاکھ ایکڑکمرشل مقاصدکیلئےاستعمال ہورہی ہے۔جسکو کئی ادارےجن میں فوجی فاؤنڈیشن،بحریہ فاؤنڈیشن،آرمی ویلفیئرٹرسٹ استعمال کررھےہیں۔
نیز بےنظیر بھٹو نے بیک جنبشِ قلم جنرل وحید کاکڑ کو انعام کے طور پر 100مربع زمین الاٹ کی تھی۔
اس کے علاوہ بریگیڈیئر و جرنیل سمیت سبھی آرمی آفیسرز ریٹائرمنٹ کے قریب کچھ زمینیں اور پلاٹ اپنا حق سمجھ کر الاٹ کرا لیتے ھیں۔ مثال کے طور پر ماضی قریب میں ریٹائر ھونے والے جنرل راحیل شریف نے آرمی چیف بننے کے بعد لاھور کینٹ میں868کنال کا نہایت قیمتی قطعہ زمین الاٹ کرانے کے علاؤہ بیدیاں روڈ لاھور پر بارڈر کے ساتھ90ایکڑ اراضی اور چند دیگر پلاٹ بھی (شاید کشمیر آزاد کرانے کے صلہ میں یا پھر دھرنے کرانے کے عوض) الاٹ کروائے جن کی مالیت اربوں میں بنتی ھے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں عام آدمی چند مرلے کے پلاٹ کےلئے ساری زندگی ترستا رھتا ھے کیا یہ نوازشات و مراعات یا قانونی اور حلال کرپشن ھے یا اس جرنیلی مافیا کی بےپناہ لالچ و حرص وحوس؟ کیاعوام کو اس کے خلاف آواز اٹھاکر اس حلال کرپشن کو روکنے کی کوشش نہیں کرنا چاھیئے؟🤔
🇵🇰
حوالہ جات:
Report on lands reforms under ppls govt.
Booklet by Govt in 1972.
Case of Sindh.(G.M.Syed)
The Military and Politics in Pakistan..
(Hassan Askari)
Military Inc.
(Dr. Ayesha siddiqa)
پی۔ایل۔ڈیز اور مختلف اخبارات۔
Received via WhatsApp