Tuesday, July 21, 2020

مطیع اللہ جان کہاں ھیں؟




اس بات کا شاید اندازہ لگانا مشکل نھیں 
کے پاکستان میں صحافیوں کو کسقدر مشکلات ھیں انہیں طرع طرع سے تنگ کیا جاتا ھے
سلیم شہزاد کا قتل ایک المناک واقع تھا اس نے حقائق سے پردہ اٹھانا چاھا اس کی کتاب پڑھ کر ایک خوف آتا ھے اور سمجھ نھیں آتی ایک جرنلسٹ کس طرح 
اتنی باتیں جانتا ھے





صحافت کو تحفظ تو کہیں نھیں ڈینیئل پرل کا قتل ھو یا سلیم شہزاد کا صحافت رک نھیں گئی لیکن اس پر تالے ضرور لگ چکے ھیں




مطیع اللہ جان کا اغوا کس نے کیا ہے تو وردی سے ھی ظاھر ھے لیکن جس طرح پاکستان کے دارالخلافہ میں ان کی بیگم کے سکول کے باھر سے ان کا اغوا ھوا وہ ایک خوفناک بات ھے

اس میں ھو سکتا ھے کے ان کی بھی سر بریدہ لاش کہیں مل جائے اور ان کی زبان بندی کر دی جائے

اس واقع نے ایک بات یقینی کر دی ھے کے ریاست کے باوردی ستون کتنا ڈرے اور سہمے ھوئے ھیں ان کے بزدلانہ اقدام انہیں آوازیں بلند کرنے سے نھیں روک پائینگے

مطیع اللہ جان تم امر ھو گئے
وردی تو ایک دن اتر جائے گی لیکن خاموش آوازیں کبھی روک نھیں پاؤ گے

No comments:

Post a Comment