بچوں سے زیادتی پر قانون کیوں نھیں بن سکتا؟ آخر مجرم سزا کیوں نھیں پاتا؟
پاکستان میں ریپ اور جنسی زیادتی کے مجرم کیسے بچ جاتے ھیں اور ان کے خلاف سخت قوانین کیوں نھیں بنائے گئے
ریپ
پاکستان میں خواتین اور بالخصوص بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے خلاف موثر قانون کی موجودگی نھیں ھے گرچہ ھمیں 72 سال پہلے آزادی ملی لیکن آج بھی ھم 1860 کے قانون کو لے کر چلتے ھیں جو اب پاکستان پینل کوڈ کی شق 374 ھے اور ہے ایسا قانون ھے جس میں کافی ابہام ھیں
پاکستان میں قانون کہتا ھے کے جو شکایت کنندہ ھے وہ ثابت کرے کے واقعی زیادتی ھوئی ھے بچیوں کو کٹہرے میں لا کر ان کی شخصیت کچل دی جاتی ھے
اس جرم میں سزا سزائے موت اور عمر قید ھے
لڑکوں سے زیادتی
ھمارے معاشرے میں سب سے زیادہ ہے بیماری پھیل تھی ھے اس میں تو قانون ایک مزاق بن چکا ھے ہے دفعات 377 لگتی ھیں اس میں سب سے بڑی سزا دس سال اور کم از کم سات سال ھے اور اس میں جو سب سے المناک بات ھے کے پاکستان میں ایک قانون 494 شق ھے جس کے تحت ماسوائے سزائے موت اور عمر قید کے مجرم باقی تمام کو ضمانت مل سکتی ھے
نرم قوانین کی وجہ سے ملزم بچ جاتے ھیں
مدارس اس وقت سب سے بڑا زریعہ ھے جہاں بچوں کا ریپ ایک معمول کی بات ھے اور ہے کلچر ھمیں افغانستان سے ملا ھے
سوال یہاں بنتا ھے کے پھانسی کا قانون تو عالی دنیا ھمیں دینے نھیں دیتی لیکن مجرموں کو کیسے اس قبیح فعل سے روکا جائے اس کا کوئی جواب نھیں ھے
زینب کے مجرم عمران کو پھانسی ملی تو کیس ملڑی کورٹ میں ٹرائل ھوا لیکن کیا ایسا انصاف ھر شخص کو مل سکتا ھے قومی اسمبلی نے ایک قانون سر عام پھانسی کا بنایا لیکن مسئلہ وھی ھے کے لبرل پارٹیاں جیسے پی پی پی انہوں نے اس کی مخالفت کی اور کہا ہے عالمی قانون کی خلاف ورزی ھو گی
مانسہرہ میں مسجد کے قاری کا بچے کے ساتھ ریپ اور اس پر ایک مذھبی پارٹی کے مفتی کفایت اللہ کا مجرم کو چھپا دینا اس معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ ھے
اس تھپڑ کی گونج ھمیں تا قیامت سنائی دے گی اسلام میں کہیں اس کی گنجائیش نھیں اور ہے مفتی اور مدارس کے منتظمین اس کے سب سے بڑے ملزمان ھے
حیرت ھے کے نا زمین پھٹتی ھے جب تین چار سال کے بچے اور بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ھے
No comments:
Post a Comment