یے پاکستان ھی ھے
یے ان دنوں کی بات ھے جب کوئی بچہ ریپ نھیں ھوتا تھا شراب کھلے عام بکتی تھی لیکن غل غپاڑہ کبھی نھیں دیکھا تھا
رات کو لوگ بے فکری سے جیب میں پیسہ لے کر گھومتے کوئی ڈر یا خوف نھیں ھوتا تھا
رات کے بارہ بجے کراچی جوان ھوتا شراب اور شباب کی محفلیں سجنا شروع ھوتی
ھلکی ھلکی خمار میں مونگ پھلی کھاتے بئیر کا نشہ لیتے جب تاج ھوٹل میں جوڑے رقص شروع کرتے ھلکی روشنی میں جسموں سے مہیکتی خمار آلود سانسیں
ایسے میں میوزک کی رتھم پر لیلی رقص کرنے آتی اور اس کے جسم کی رنگینیاں دیکھتے پھر میوزک کی تال پر وہ اپنے کپڑے اتارتی
سانسیں بے ھنگم شراب کی خوبصورت مہک جوڑوں کے لب سے لب ملے
اور ایک دھماکہ سے لیلی اپنا بریزئیر اتار کر پھینک دیتی
کیا سندر نظارہ ھوتا دودھ سے دھلا جسم اور اس پر ھلتے دو پہاڑ
بریزئیر جس خوش قسمت پر گرتا وہ اٹھتا لیلی جو بھینچ کر کس کرتا اور تالیاں
لیلی بہت آسانی سے مل جاتی اس کے جسم کی خوشبو پاگل کر دیتی تھی
باھر روڈ پر ٹیکسی والا ایک البم لئے کھڑا ھوتامرد عورت ھر قسم کا سیکس
کاش وہ زمانہ لوٹ آئے
لیلی کا بریزئیر اچھلے کسی بچے کی لنگوٹ نا اترے
سیکس تو ھونا ھے بھلے زبردستی ھو بھلے مرضی سے
آج تو ھاتوں سے مسلتے لوگ
No comments:
Post a Comment